خیبرپختونخواحکومت اوروزیراعلیٰ ایک بارپھراسلام آبادکی جانب مارچ اوراحتجاج کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔اس مرتبہ انہیں بشریٰ بی بی کی خدمات بھی حاصل ہوچکی ہیں بشریٰ بی بی احتجاج میں شریک نہیں ہونگیں مگرانہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس کوسیاسی سرگرمیوں کا مرکز بناکر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اوراحتجاج کی منصوبہ بندی بنفس نفیس کررہی ہیں ۔انکی ایک مبینہ ٓاڈیوبھی منظرعام پرآئی ہے جس میں وہ پختونوں کی غیرت ،حمیت اورجذبہء جہادکوابھارتی ہوئی نظرآرہی ہیں ۔ان کاکہناہے کہ سیاست میں آنے کاکوئی ارادہ نہیں مگرعمران خان کی رہائی کیلئے اپناکرداراداکرناچاہتی ہیں ۔انہوں نے پارٹی راہنماؤں اورعہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں جس میں پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی زیربحث آئے ہیں اختلاف رکھنے والوں کوواضح پیغام دیاگیاہے کہ 24نومبرکے احتجاج تک اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کرعمران خان کی رہائی کیلئے کمرکس لیں ۔انکی پردے سے تقریرکے دوران پانچ سوکے لگ بھگ پارلیمنٹرینز اورقدآورسیاسی شخصیات موجود تھیں جنہیں سیاست سے نابلدیااس خارزارمیں نوآموزخاتون احکامات صادرفرمارہی تھیں۔ صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈرزکوپانچ ہزارجبکہ قومی اسمبلی ٹکٹ ہولڈرزکودس ہزارافرادلانے کی ہدایت بلکہ احکامات جاری کردئے گئے ہیں ۔ اسدقیصرنے وزیراعلیٰ کی موجودگی میں بشریٰ بی بی سے ملاقات کی جس میں انہیں صوابی سے علی امین گنڈاپورکیساتھ مشترکہ طورپر احتجاجی ریلی کی قیادت کیلئے ہدایات ملی ہیں ۔ اس سے قبل سابق سینئروزیراورصوبائی حکومت یاوزیراعلیٰ کے درمیان اختلافات کی خبریں زبان زد عام تھیں مگربشریٰ بی بی کے آنے سے یہ بھی دب گئے ہیں عاطف خان نے احتجاج میں بھرپورشرکت کرنے کے متعدد بیانات جاری کئے ۔بشریٰ بی بی کی ہدایت کے مطابق علی امین گنڈاپور ، اسدقیصراورعاطف خان احتجاج کی قیادت کرینگے۔تادم تحریراحتجاج کیلئے تیاریاں جاری تھیں پشاور،خیبراوردیگراضلاع کے جلوس پشاور جبکہ ،مردان ،نوشہرہ وغیرہ کے جلوس صوابی انٹرچینج پرجمع ہونگے ۔قیادت کیلئے کنٹینربھی تیارکیاگیاہے ۔عمران خان نے گوہر خان اور گنڈاپور کوسٹیبشمنٹ کیساتھ مذاکرات کااختیاربھی دیاہے مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ 21نومبرکے بعدمذاکرات نہیں ہونگے اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو24 نومبرکوجشن منایاجائیگااوراگرناکام رہے تواحتجاج کیاجائیگا۔سٹیبلشمنٹ سے مذاکرات عمران خان کی دیرینہ خواہش ہے جوتاحال پزیرائی سے محروم ہے ۔ تحریک انصاف حالیہ احتجاج کوفائنل کال قراردے رہی ہے اورپارٹی قیادت کو یقین ہے کہ اس کے نتیجے میں عمران خان کی رہائی عمل میں آجائیگی ۔حکومت کوجوشرائط پیش کی گئی ہیں اس سے حکومت کااتفاق ممکن نہیں ۔ ان میں سے ایک بھی شرط مان لی گئی توحکومت کاوجودخطرے میں پڑ جائیگاایسی شرائط بھلاکون مان سکتاہے جس سے اپنے وجودکوخطرات لاحق ہوں۔ خدا کرے احتجاج پرامن رہے اوراسمیں تشددکاعنصرشامل نہ ہوباقی اسکے نتائج عنقریب سامنے آجائینگے۔قوی امکان ہے کہ یہ احتجاج بھی سابقہ احتجاجوں کی طرح ناکام ثابت ہوکیونکہ اس کیلئے کوئی بنیادموجودنہیں ۔بظاہرتو26ویں ترمیم کی واپسی ،انتخابات کاآڈٹ ،کارکنوں کی رہائی اوراس طرح کے دیگر مطالبات رکھے گئے ہیں مگردرحقیقت نہ ہی تواس جماعت یااسکے بانی کو26ویں آئینی ترمیم سے سروکارہے نہ ہی کارکنوں کی کوئی فکرہے اورنہ ہی جمہوریت یاجمہوری آزادی کاغم ہے ۔اصل مقصد عمران خان کی رہائی ہے اوراس رہائی کیلئے عوام کوپولیس اورفوج کے سامنے کھڑاکرنیکی کوشش ہورہی ہے خیبرپختونخواکے لوگوں کوبشریٰ بیگم کی زبانی غیرت دلانے اورجذبہء جہادکوابھارنے کی کوشش بھی ہوئی جس کاایک خاص طبقے کے سواکوئی اثرپڑنے کاامکان نہیں ممکنہ طورپراحتجاج میں وہی لوگ شامل ہونگے جنہیں یاتوممبران اسمبلی لائینگے یاپھروہ ‘‘پانچ ہزاری ’’ ہونگے ۔ان بے مقصد احتجاجوں کیلئے صوبے کے وسائل بے دریغ لٹائے جارہے ہیں بشریٰ بی بی کی جانب سے حکومتی معاملات میں مداخلت کاسلسلہ بھی شروع ہوچکاہے گورنرفیصل کریم کنڈی نے گزشتہ ہفتے کہاتھاکہ صوبے میں ایک حکومت بشریٰ بی بی جبکہ دوسری علی امین گنڈاپورکی چل رہی ہے۔
وصال محمد خان