وزیرستان میں فورسز کی کارروائیاں اور چلینجز

پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سنگم پر واقع غریم شکتوئی کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے کئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ اور ذمہ دار احسان سنڑے کو اس کے تین ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا ہے جبکہ بعض دیگر علاقوں میں بھی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر محدود کارروائی کی گئی ہے تاکہ اس شورش زدہ علاقے میں گزشتہ کچھ عرصے سے شرپسندوں کی جاری کارروائیوں اور سرگرمیوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔

وہ بعض دوسرے حملوں کے علاوہ گذشتہ ہفتے شکتوئی کے علاقے میں پاک فوج پر کرائے گئے اُس حملے میں بھی ملوث تھا جس میں سات سپاہیوں سمیت ایک افسر لیفٹیننٹ ناصر اور کیپٹن صبیح کو شہید کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ شخص اور اس کا گروہ متعدد دوسرے حملوں میں یا تو براہ راست ملوث رہے ہیں یا انھوں نے حملوں کی پلاننگ کی۔

جنوبی اور شمالی وزیرستان میں فورسز اور حکومت کے حامی لوگوں پر ہونے والے مسلسل حملوں کی تعداد جولائی اور اگست کے مہینے میں بڑھتی دکھائی دی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اِن دو مہینے کے دوران اِن دو اضلاع میں تقریباً 19 حملے کرائے گئے جس کے نتیجے میں اہم افسران اور فوجی اہلکاروں کے علاوہ مقامی لوگوں کو بھی جانی نقصان پہنچایا گیا۔ بعض فوج مخالف حلقوں کے پروپیگنڈے کے برعکس دستیاب معلومات کے مطابق دہشت گردوں نے ان حملوں کے دوران اور اس کے علاوہ جن سیویلین کو نشانہ بنایا ان میں 80 فیصد وہ تھے جو کہ حکومتی اداروں کے حامی تھے۔

اس عرصے کے دوران فورسز نے مصدقہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں جن دہشت گردوں یا حملہ آوروں کو نشانہ بنایا ان کی تعداد پچاس سے زائد رہی تاہم ان میں سے 90 فیصد کا تعلق مقامی آبادی کے علاقوں سے رہا ان میں متعدد ایسے رہے جو کہ افغانستان سے ہو کر آئے تھے اور ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کے بعض غیر ملکی اداروں کے ساتھ روابط رہے ہیں۔

اس سے قبل فورسز نے ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران مقامی طالبان کے ایک اہم کمانڈر وسیم زکریا کو اس کے ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا تھا جبکہ بعض اہم گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی تھی۔ وسیم زکریا کا بھی وہی کردار تھا جو کہ گذشتہ چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران احسان سنڑے کا رہا ہے۔ یہ کاروائیاں اس لیے لازمی اور ناگزیر سمجھیں گئیں کہ افغانستان کی بدلتی صورت حال اور متوقع منظرنامہ کے تناظر میں پہلے ہی سے یہ خدشہ موجود تھا کہ وہ چھپے تحریک طالبان کے جنگجو پاکستان کے اِن سرحدی علاقوں کا پھر سے رخ کر سکتے ہیں تاہم پاکستان نے نہ صرف ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی اور سرحدی حصار، مانیٹرنگ کو فعال بنایا بلکہ ان دور افتادہ اور دشوار گزار علاقوں میں سرچ اور ٹارگٹڈ آپریشن بھی جاری رکھے جہاں یا تو بعض عناصر چھپ سکتے تھے یا مقامی آبادی ،حامیوں اور رشتہ داروں کے ذریعے ان کو پناہ گاہیں اور سہولت مہیا کی جا رہی تھیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دو اضلاع میں بعض سیاسی حلقے اپنے ایجنڈے کے مطابق یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے بعض ادارے بعض طالبان گروہ کو مبینہ طور پر سپورٹ کر رہے ہیں اگر یہ تاثر درست ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً دس افسران سمیت جن درجنوں فوجی جوانوں اور فوجی حکومت کے حامیوں کو گزشتہ چند ہفتوں یا مہینوں میں دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا ان پر حملے کن لوگوں نے کرائے اور کیوں؟

گڈ طالبان کا تصور اب نہ صرف پرانا ہو چکا ہے بلکہ ماضی کے مقابلے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مجموعی حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں تاہم جو عناصر یکطرفہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں وہ یہ بات یا حقیقت ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ریاست اور اس کی مخالفت اور مزاحمت کرکے دراصل وہ ان قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جو کہ ان علاقوں کی تباہی کی ذمہ دار رہے ہیں اور ان کی اب پھر کوشش ہے کہ ان علاقوں کو پھر سے میدان جنگ بنا یا جائے۔ حکام کے مطابق بعض غیر ملکی ادارے افغانستان میں چھپے حملہ آوروں کو ایک بار پھر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تاہم پاکستان کی صف بندی اور تیاری مکمل ہے اور قبائلی علاقوں کے امن کو ہرقیمت پر یقینی بنایا جائے گا حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف
اپنی سیکیورٹی پر بھر پور توجہ دے رہا ہے بلکہ پوری دنیا نے دوحہ کے حالیہ بین الافغانی مذاکرات کے انعقاد میں پاکستان کے مثبت کردار کو کھلے عام سراہا ہے اس لئے ریاست پر اعتماد کیا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket