Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

سانحہ مہمند، ذمہ داران اور مجوزہ پالیسی

ضلع مہمند کے علاقے زیارت میں ماربل کی کان بیٹھنے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 28 ہوگئی ہے جبکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ متعدد دوسرے مزدور اب بھی ملبے تلے موجود ہیں جن کو نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

وزیراعلیٰ پختونخوا محمود خان نے اس واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا ءکے لیے 9 لاکھ روپے فی کس امداد دینے کا اعلان کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی اور ایسے سانحات سے بچنے کے لیے بھی اقدامات ہوں گے۔

صوبائی حکومت نے علاقے سے ماربل لے جانے پر غیر معینہ مدت کیلئے پابندی لگا دی ہے اور موقف اپنایا ہے کہ مال نکالنے اور لے جانے کے لیے ایس او پیز مرتب کی جا رہی ہیں تا کہ اس پورے عمل کو محفوظ بنایا جائے اور لیز کے طریقہ کار کو بھی بعض بنیادی شرائط کے ساتھ مشروط کیا جا سکے۔

موجودہ حکومت نے چند برس قبل اعلان کر رکھا تھا کہ لیز کے طریقہ کار پر نظرثانی کرنے کے علاوہ مہمند کے اسی علاقے یعنی زیارت کو ماربل اسٹیٹ کلیئر کر کے یہاں نہ صرف جدید سہولیات دی جائیں گی بلکہ محفوظ طریقہ سے ماربل اور دیگر معدنیات نکالنے کے لیے موثر قانون سازی سمیت دیگر اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

مگر یہ اعلان بعض دوسرے وعدوں کی طرح صرف اعلان تک محدود رہا ۔ ماربل سٹی کا قیام اور جدید سہولیات کی فراہمی تو دور کی بات متعلقہ حکومتی اداروں نے وہی روایتی طریقے اپنا کر صرف اپنے مالی فوائد اور لیز ہولڈرز کے مفادات ہی کو مقدم رکھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ روز سانحہ زیارت وقوع پذیر ہوا جس نے دو درجن سے زائد مزدوروں کی جانیں لے کر سب کو غمزدہ کر دیا۔

ماربل سٹی کا قیام اگر عمل میں لایا جاتا اور لیز کو بعض بنیادی شرائط اور ایس او پیز کے ساتھ مشروط کرنے کا اقدام اٹھایا جاتا تو شاید لوگوں کو حالیہ افسوسناک واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔
ماربل سٹی کے مجوزہ ماڈل بعض دوسرے متعلقہ علاقوں میں آزما کر نہ صرف مزدوروں کی سلامتی اور حقوق کو ممکن بنایا جاتا بلکہ روایتی کان کنی سے قدرتی وسائل کا جو بے دریغ ضیاع ہو رہا ہے اس کا راستہ بھی روک دیا جاتا تاہم اس ضمن میں روایتی غفلت کرپشن اور اقرباء پروری سے کام لے کر اتنے بڑے سانحے کی نوبت آنے دی گئی اور اب بھی کوئی عملی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل کے ٹھیکے سیاسی اور خاندانی وابستگی اور اثر رسوخ پر دیے جاتے ہیں جس کے باعث جہاں ایک طرف مقامی آبادی اور علاقے کی حق تلفی کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے وہاں بااثر لوگ کروڑوں اربوں روپے کما کر ان وسائل کے فوائد کو خود تک محدود رکھتے ہیں اور ان قدرتی وسائل سے مقامی آبادی، صوبہ اور ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

مثال کے طور پر اس وقت مہمند، باجوڑ اور خیبر کے علاوہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی کانوں کے تقریباً 80 فیصد لیزیاٹھیکے بااثر سیاسی افراد اور عوامی نمائندوں کے پاس ہیں اور ان لوگوں نے اب باقاعدہ مافیاز کی شکل اختیار کر رکھی ہے۔
درہ آدم خیل اور بعض دیگر علاقوں میں کوئلے کے قیمتی ذخائر اور ملا کنڈ ڈویژن میں بعض قدرتی وسائل کے ذخائر پر بھی چند ہی خاندانوں یا مافیاز کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ خود تو کروڑوں اربوں کماتے ہیں مگر اپنے مزدوروں اور مقامی آبادی کا تحفظ اور معاشی مفاد کا خیال تک نہیں رکھتے۔ لازمی ہے کہ تحفظ اور مقامی رائلٹی کے علاوہ لیز کے فرسودہ نظام اور روایتی کانکنی کے تباہ کن طریقہ کار کو جدید بنا کر قومی وسائل کے ضیاع کا راستہ سختی سے روکا جائے۔

ایک امریکی سروے کے مطابق خیبرپختونخوا میں تین ٹریلین ڈالرز کی ناقابل یقین معدنیات، تیل اور گیس موجود ہیں۔ سروے کے مطابق صرف تیل کے ممکنہ ذخائر اور مقدار ایران کے تیل کی پیداوار کے برابر ہے جبکہ افغانستان کے بارے میں سال 2016 کے اِسی امریکی سروے کے مطابق کہا گیا ہے کہ وہاں تقریباً پانچ ٹریلین ڈالرز کے معدنیات اور دوسرے قومی وسائل موجود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں معدنیات اور دوسرے وسائل کی محفوظ دریافت اور جدید سہولیات کے ذریعے اس کی سپلائی کے کام پر اگر خصوصی توجہ دی جائے تو اس سے پاکستان کی معیشت اور صوبے کی ترقی کو ناقابل تصور حد تک فائدہ پہنچے گا تاہم اس کے لیے مربوط قومی پالیسی مافیاز کی حوصلہ شکنی اور سہولیات کی فراہمی لازمی ہے اور حکومت کو اس ضمن میں اب روایتی طریقہ کار کی بجائے سنجیدگی سے فیصلے اور اقدامات کرنا ہونگے تاکہ ان بے پناہ وسائل سے مستقل بنیادوں پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔

مہمند کے متاثرین کی دادرسی، بہتر طبی سہولیات کی فراہمی حکومت اور لیز ہولڈرز پر فرض ہے تاہم اس سے زیادہ لازمی بات یہ ہے کہ آئندہ کے لئے محفوظ کان کنی کے عمل کو یقینی بنایا جائے اور جولیز ہولڈرز ایس او پیز کا خیال نہیں رکھتے ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ساتھ میں متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی فعال اور جواب دہ بنایا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket