چھ اور سات ستمبر کو جب پاکستان میں 1965 کی جنگ اور یومِ دفاع کے حوالے سے تقریبات اور سرگرمیاں جاری تھیں پاکستان کی دو بڑی جماعتوں جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی نے یکے بعد دیگرے ختم نبوت پر ریلیوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا اور ہزاروں کارکن اِن پارٹیوں کے دو الگ الگ اجتماعات میں شریک ہوئے حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دونوں اجتماعات کے لیے پشاور کا انتخاب کیا گیا جس کےبعد بعض حلقوں نے سوال اٹھایا کہ ان دونوں سرگرمیوں کیلئے دونون جماعتون نے پشاور اور خیبر پختونخوا ہی کا انتخاب کیوں کیا؟
یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ خیبرپختونخوا ہی کیوں مذہبی قوتوں کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہتا ہے؟ سات ستمبر کو جہاں ایک طرف جے یو آ ئی پشاور میں ختم نبوت کانفرنس اور ریلی کا مظاہرہ کر رہی تھی، عین اسی وقت جماعت اسلامی پشاور ہی میں حجاب کے عنوان سے ایک مباحثے میں مصروف تھی جس سے دوسروں کے علاوہ پارٹی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے بھی خطاب کیا۔ دو روز تک ایک ہی صوبے اور ایک ہی شہر میں ختم نبوت کے مسئلے پر الگ الگ اجتماعات کے انعقاد کو بظاہر ان پارٹیوں کا جمہوری حق کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ معاملہ تقریباً ہر دور میں مذہبی سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث رہا ہے اور ہر مسلمان اپنے عقیدے کی بنیاد پر اس کو ایمان کا جزو سمجھتا ہے تاہم سوال اٹھانے والوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ جب تمام مسلمان اس کے حکمران اور سیاستدان ختم نبوت کو اپنے ایمان اور عقیدے کا لازمی اور بنیادی نقطہ سمجھ رہے ہیں تو ان پارٹیوں کو کس عمل، فیصلے یا خدشے نے احتجاجی ریلیوں اور عوامی اجتماعات پر مجبور کیا؟برسرزمین حقائق تو یہ ہیں کہ موجودہ حکومت نے بعض سیکولر حلقوں کے اعتراضات اور مخالفت کے باوجود بعض ایسے قوانین پاس کئے اور متعدد ایسے فیصلے کیے جن کی بنیاد پر ختم نبوت کے معاملے پر بعض تحفظات کا قانونی ازالہ کیا گیا اور ریاست کی پالیسی بھی قطعی طور پر واضح کر دی گئی۔ یہی مسئلہ ہمیں پردے یا حجاب کے معاملے پر بھی نظر آ رہا ہے اگر بعض مذہبی حلقے حجاب کو مذہب یا دین کا لازمی جزو قرار دے رہے ہیں تو ایک اکثریتی حلقہ اس کو مشرقی روایات اور ثقافت کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔
حجاب کے معاملے کو اس حوالے سے ذاتی عمل کہا جاسکتا ہے کہ نہ تو ہمارے معاشرے میں کسی موثر طبقہ نے عوامی سطح پر اس کی مخالفت کی ہے اور نہ ہی اس کا تعلق محض مذہب تک محدود رہا ہے ۔
جہاں تک حالیہ سرگرمیوں کا تعلق ہے بعض حلقے اس کو جہاں نان ایشوز قرار دے رہے ہیں وہاں بعض اس کو موجودہ حکومت کے خلاف مذہب کی بنیاد پر تحریک چلانے کا نسخہ قرار دے رہے ہیں جبکہ اس تاثر کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ خیبرپختونخوا کو افغانستان کے بدلتے حالات کے تناظر میں 2001-2 کی طرح پھر سے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ اس وقت امریکی حملے اور مداخلت کے تناظر میں حالات موجودہ صورتحال سے یکسر مختلف تھے۔
مولانا فضل الرحمان پہلے روز سے عمران خان اور بعض دیگر شخصیات پر نہ صرف حساس مذہبی نوعیت کے الزامات لگاتے آرہے ہیں بلکہ وہ حکومت کے بارے میں غیر معمولی مزاحمت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل اپوزیشن تشکیل دے کر تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے ۔تحریک چلانا یا کسی بھی معاملے پر جلسہ جلوس کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے تاہم مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رویہ اس حوالے سے مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا کہ پاکستان ماضی میں اس کے بہت منفی نتائج بھگ چکا ہے اس لئے احتیاط لازمی ہے اور تصادم سے گریز میں سب کا فائدہ ہے۔
پاکستان کو کئی بیرونی چیلنجز اور دباؤ کا سامنا ہے ایسے میں حکومت کی مخالفت میں کشیدگی اور محاذ آرائی کو فروغ دینا جے یو آئی اور جماعت اسلامی جیسی سنجیدہ پارٹیوں کو زیب نہیں دیتا ۔حکومت کا اپوزیشن کے معاملے پر رویہ مصالحانہ کی بجائے مزاحمت پر مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض خرابیوں کی ذمہ داری حکومت پر بھی ڈالی جاسکتی ہے۔ غیرضروری بیانات اور الزامات نہ صرف حکومت اور اپوزیشن کو قریب نہیں آنے دے رہے ہیں بلکہ یہ رویہ خود حکومت کی مشکلات میں اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے اس لیے حکمران اپنے لہجے اور رویے پر نظرثانی کریں۔
چھ اور سات ستمبر کے روز جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ریاستی اداروں نے کئی کاروائیاں کر کے ایک درجن کے قریب دہشت گردوں کو مارا اور گرفتار کیا جبکہ بعض دوسرے علاقوں میں دو طرفہ کارروائیاں ہوئیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم اور ریاست کو نہ صرف متحد اور یکساں ہونے کی ضرورت ہے بلکہ درپیش علاقائی چیلنچز کا قومی ادراک بھی ہونا چاہیے۔