Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

خیبر پختونخوا میں سیلاب اور اس کے اسباب

کراچی اور ملک کے بعض دیگر علاقوں کی طرح خیبرپختونخوا بھی شدید بارشوں کے نتیجے میں غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر عوام اور حکومت نے اس صورتحال میں ذمہ داری، تعاون اور احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا تو 2010 کی طرح پختونخوا کے متعدد علاقے بری طرح متاثر ہو جائیں گے اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے سوات، دریائے پنجگوڑہ، اور دریائے کابل میں حالیہ غیر معمولی بارشوں سے تقریباً 33 مقامات پر سیلاب کی صورتحال بن چکی ہے جبکہ ہزارہ ڈویژن کے مانسہرہ، حویلیاں، بٹگرام اور بعض دیگر علاقے دریائے سندھ اور بعض مقامی ندیوں کے باعث متاثر ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چترال، دیر، سوات، بونیر، چارسدہ اور نوشہرہ میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان کے مطابق حکومتی ادارے نہ صرف صورتحال اور نقصانات سے باخبر ہیں بلکہ امدادی کاروائیاں، لوگوں کی منتقلی اور عارضی آبادکاری کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔
متعلقہ محکموں کے مطابق منگل کی شام کو سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر 50 ہزار کیوسک پانی جبکہ چکدرہ کے مقام پر اُسی شام 75000 کیوسک پانی گزر رہا تھا ۔ یہ کافی پریشان کن بہاؤ ہے جس کے باعث خدشہ ہے کہ جب پانی کا اتنا بڑا بہاؤ یا ریلا دریائے کابل میں شامل ہو گا تو اس سے وادی پشاور کے بعض اہم علاقے بُری طرح متاثر ہوں گے۔ ان علاقوں میں چارسدہ اور نوشہرہ بھی شامل ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہر دوسرے تیسرے سال سیلاب آ جاتا ہے مگر عوام اور متعلقہ حکومتی ادارے مسلسل سیلابوں اور نقصانات کے باوجود احتیاط اور ذمہ داری سے کام نہیں لیتے۔ 2019 کے دوران چترال میں بدترین سیلاب آیا جس نے چترال کے علاوہ دیر اور نوشہرہ کے بعض علاقوں کو بھی متاثر کیا۔ اس سے قبل سوات میں 2010 کے دوران تاریخ کا بدترین سیلاب آیا تھا جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف تقریباً 70 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین پانی میں بہہ گئی۔ سینکڑوں عمارتیں دریا کی نذر ہوگئے اور تقریباً 80 پل پانی میں بہہ گئے اس کے بعد ایک سروے کرایا گیا جس کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے اسباب کا جائزہ لیا گیا اور ان کے سدباب کے لئے قوانین بنائے گئے ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ غیر معمولی بارشوں کے علاوہ دریاؤں کے کنارے بنی عمارتیں اور تجاوزات ہی وہ بنیادی عوامل یا اسباب ہیں جن کے باعث ایسے سیلاب آتے ہیں اور نقصانات پر قابو نہیں پایا جاتا۔ المیہ تو یہ ہے کہ سال دو ہزار دس کے سوات سیلاب کے باوجود لوگوں نے نہ صرف انہی جگہوں پر پھر سے ہوٹل، دوکان اور گھر بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جہاںسیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا تھا بلکہ کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے نے ان تعمیرات اور قوانین کی خلاف ورزی کا نوٹس بھی نہیں لیا ۔ بحرین سوات میں ایک تاریخی ہوٹل کو متعدد دیگر کی طرح 2010 کا سیلاب بہا کر لے گیا تھا مگر چند برس بعد اسی جگہ پر حکومت کی ناک کے نیچے ایک بڑی مسجد بنائی گئی جبکہ متعدد دیگر مقامات پر بھی عمارتیں کھڑی کی گئی۔
جاری سیلاب یہی عمارتیں پھر سے بہا کر لے گیا ہے یا بعض کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ بحرین ،مدین ، خوازاخیلہ یہاں تک کہ مرکزی شہر مینگورہ میں بھی عام لوگوں کے علاوہ ہوٹل مالکان نے نہ صرف ہوٹل بنائے رکھے ہیں بلکہ انہوں نے بدترین تجاوزات کی شکل میں دریا کی زمین پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بارشیں بڑھتی ہیں تو پانی کے لیے روٹین کے مطابق اپنے لیے راستہ نکالنا پڑتا ہے مگر ان رکاوٹوں کے باعث اس کو درکار جگہ نہیں ملتی اور پھر ہمیں بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی صورتحال دیر ،چترال اور دریائے کابل میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ عوام اور لینڈ مافیا کے کارندے دریاؤں کے کنارے عمارتیں ہوٹل اور گھر تعمیر کر کے کسی قانون یا طریقہ کار کو خاطر میں نہیں لاتے۔
سیلابوں اور ان سے ہونے والے نقصانات کا تیسرا بڑا سبب بالائی علاقوں میں جنگلات کے کی بے دریغ کٹائی بھی ہے۔ اس کام میں بھی بڑے طاقتور مافیاز ملوث ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کے بعد پہاڑوں میں موجود مٹی اور ریت زیادہ بارشوں کی صورت میں ندیوں کے ذریعہ دریاؤں میں گر جاتی ہے جس کے باعث پانی کی سطح اوپر چلی جاتی ہے اور وہ بےقابو ہو جاتا ہے۔ سردست ضرورت اس بات کی ہے کہ حالیہ سیلاب کے نقصانات کا ہنگامی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے اور غیر قانونی تعمیرات اور ٹمبر مافیا کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket