امریکی مداخلت آئینی بحران اور قومی سلامتی

3 اپریل 2022 پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ہنگامہ خیز دن ثابت ہوا۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تبدیلی کے لئے جو تحاریک جمع کروائی تھیں ان کے نتائج tehreek adam aitamadحسب توقع نہیں نکلے۔ وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدر نے قومی اسمبلی توڑ دیں اور اسمبلی کے علاوہ عمران خان بھی وزیراعظم نہیں رہے تو دوسری طرف ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے آئین کے آرٹیکل 5 کا سہارا لے کر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو یہ جواز بنا کر مسترد کردیا کہ اس تحریک کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ یا سازش ہے اس لئے اس پر ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔
اسی دوران سپریم کورٹ نے ایک سوموٹو ایکشن لے کر فریقین کو حکم دیا کہ وہ امن و امان کی صورتحال کو خراب ہونے نہ دیں اور کوئی غیرقانونی کام نہ کریں یوں ملک میں ایک نیا بحران پیدا ہوا۔
بظاہر تو عدم اعتماد سیدھا سادہ آئینی طریقہ کار اور سیاسی حق ہے جو کہ اپوزیشن کو حاصل ہے تاہم عمران خان نے اس معاملے کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں ہونے والی ایک مبینہ امریکی مداخلت یا سازش سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ امریکہ نے باضابطہ طور پر پاکستان کے سفیر اسد مجید کو کہہ ڈالا تھا کہ امریکی حکومت عمران کے دورہ روس اور افغانستان میں پاکستان کے کردار سے خوش نہیں ہے اس لیے ان کی حکومت ختم کرنا چاہتی ہے۔
تحریک عدم اعتمادآن دی ریکارڈ متعلقہ دو امریکی عہدیداران سمیت اپوزیشن نے بھی اس خط یا مبینہ سازش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تاہم عمران خان نہ صرف اپنے موقف پر ڈٹے رہے بلکہ انہوں نے اسد مجید کی جانب سے بھیجے گئے لیڈ یا مراسلہ کو نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھی پیش کیا اور اس معاملے پر اعلیٰ سطح مشاورت بھی ہوئی۔ بہرحال اس ایشو کو عمران خان نے امریکی سازش سے جوڑ کر اینٹی امریکہ کارڈ کے طور پر استعمال کیا، عوام کی بڑی تعداد کی توجہ بھی حاصل کی اور عدم اعتماد کی کوشش کو بھی سبوتاژ کیا۔
دوسری طرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسی دوران ایک سیمنار سے خطاب کے دوران کہا کہ اگر ایک طرف چین اور بعض دیگر ممالک کے ساتھ نئی بنیادوں پر نئے تعلقات کی بنیادیں رکھ رہا ہے اور سب سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو وہاں امریکہ کے ساتھ پاکستان کی اسٹریٹجک اور اکنامک ریلیشن شپ بھی بہت پرانی اور اہم ہے اور پاکستان ان تعلقات میں مزید استحکام چاہتا ہے۔
مستقبل کا سیاسی منظرنامہ کیا بنتا ہے یہ وقت اور حالات پر منحصر ہے تاہم اس تمام معاملے کے دوران سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کے مسئلے اور ایک ریجنل پولیٹیکل ایلائیمنٹ کے ایشو پر پاکستان سے اتنا ناراض ہے کہ امریکہ نے انتہائی اقدام کے طور پر عمران خان کی حکومت کو گرانے کی سازش کی؟
اس پر تجزیہ کار اور سفارتکار ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں تاہم اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بعض حکومتی وزراء اور دیگر حلقوں نے حالیہ مسئلے میں ملٹری، اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کو ملوث کرنے کی شعوری کوشش کی جس کے ردعمل میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح انداز میں موقف اپنایا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے اور فوج کا اس سے کوئی تعلق یا لینا دینا نہیں ہے۔
اس تمام بحث کی پس پردہ تفصیلات اپنی جگہ مگر ایک بات کافی حوصلہ افزا ءہے کہ سیاسی معاملات سے فوجی اداروں کی لاتعلقی یا غیر جانبداری پر مشتمل پالیسی نے جہاں اس اہم قومی ادارے کی عزت اور شہرت میں مزید اضافہ کر دیا ہے وہاں یہ بات بھی خوش آئند ہیں کہ عسکری ادارےاپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کر رہے ہیں اور افغانستان کے معاملے کو درپیش صورتحال کے تناظر میں بہترطریقے سے ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم اس خدشے کا بھی سکیورٹی اداروں کو پہلے ہی سے ادراک اور احساس ہے کہ امریکہ اور اتحادی افغانستان میں اپنی شکست، ناکامی کی خفت مٹانے کی ضرور کوشش کریں گے اور پاکستان ان کے لئے ایک سافٹ ٹارگٹ کے طور پر موزوں آپشن ہے۔ اسی تناظر میں یہ خطرہ موجود ہی ہے کہ نیشنل سیکورٹی کے علاوہ فارن پالیسی کی مد میں بھی پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور نعرے بازیوں کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
جہاں تک عمران خان اور بعض دیگر کے ماضی کی پالیسیوں پر غیر ضروری بحث اور تنقید کا تعلق ہے اس سے عملاً کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہر فیصلے اور اقدام کا ایک مخصوص پس منظر ہوتا ہے اس لیے وار آن ٹیرر کے دوران پاکستان کے کردار کو اسی پس منظر میں پرکھا اور دیکھا جائے ۔
مستقبل بینی اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے اقدامات پر سنجیدہ قومی مشاورت اور نظر ثانی کے رویے ہی سے معاملات کو درست انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کا رویہ ترک کر کے بدگمانی اور بد اعتمادی پیدا کرنے کی کوششوں سے گریز کیا جائے کیونکہ خطے میں کئی اہم تبدیلیاں متوقع ہیں اور پاکستان اس ضمن میں ایک متحد مضبوط اور یکسو پاکستان کا ہونا لازمی ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket