سیاسی کشیدگی اور قومی قیادت کی ذمہ داریاں

جہاں تک عمران خان صاحب کا تعلق ہے پارٹی سربراہ کے طور پر ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ کارکنوں اور عوام میں کافی مقبول ہیں اور جلد انتخابات کا ان کا مطالبہ ان کا جمہوری اور سیاسی حق بنتا ہے تاہم یہ احتیاط انتہائی لازمی ہے کہ ملک کو تلخی کے بعد تصادم اور کشیدگی سے بچایا جائے اور کسی بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری طرز عمل سے گریز کیا جائے۔
عمران خان کو ہٹانے کے لیے موجودہ حکمران اتحاد نے غیر جمہوری طریقے آزمائیں ہوں تاہم تلخ حقیقت تو یہ ہیں کہ ان کے خلاف آئین اور دستور کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور اس پریکٹس کو بہرحال ایک آئینی تحفظ اور جواز میسر ہے۔
اس کے باوجود کہ وہ بعض اہم اداروں سے شکایات کرتے دکھائی دیئے جو کہ شاید ان کی توقعات پر پورے نہیں اترے مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ادارے جتنے غیر جانب دار ہوں گے اتنی ہی سیاست اور ریاست میں ان کی ساکھ قائم رہے گی۔ اگرچہ بعض مواقع پر اہم اداروں کو حالات یا یہ سیاستدان خود ہی سیاسی معاملات میں کھینچتے آئے ہیں۔

آئین کی بالادستی اور اس کا احترام لازمی ہے آئین نہ صرف عوام اور ریاست کے درمیان ایک موثر سوشل کنٹریکٹ ہے بلکہ یہ اداروں کی حدود، اختیارات اور کردار کا بھی تعین کرتا ہے اگر یہ غیر مؤثر اور متنازعہ ہو جائے تو بد اعتمادی اور بے چینی بڑھ جاتی ہے اور کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان بعض تلخ تجربات اور مہم جوئی کے نتائج بھگتنے کے باوجود کشیدگی اور بداعتمادی کا شکار ہو۔

کل شریف اور بھٹو خاندان اقتدار سے باہر تھے اور ان کو بھی بعض اداروں سے بہت سی شکایات تھیں حالات بدل گئے تو آج دونوں خاندان اور ان کی پارٹیاں اقتدار میں ہیں اور جناب عمران خان اپوزیشن میں ہیں۔ مستقبل میں یہی عمران خان ایک سیاسی اور آئینی عمل کے نتیجے میں پھر سے برسراقتدار آ سکتے ہیں اس لئے ان کو اس صورتحال میں مزاحمت کی بجائے ایک میچور سیاستدان کا رویہ اپنا کر غیر ضروری محاذ آرائی سے گریز کی پالیسی اپنانی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ بعض اہم اداروں کی اہمیت اور ساکھ کا ادراک کرتے ہوئے ان کو متنازعہ اور فریق نہ بنایا جائے۔

جمہوریت اور آئین کی بالادستی ہی کا نتیجہ ہے کہ شدید ناراضگی کے باوجود اب بھی صوبہ خیبرپختونخوا اور کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور ایوان صدر میں بھی عمران خان کا نمائندہ بیٹھا ہوا ہے۔ سینٹ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ جماعت اسلامی کو چھوڑ کر باقی تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ ہیں اور اس نظام کے استحکام اور کشیدگی کم کرنے کے لئے اہم ریاستی ادارے فریق بننے کی بجائے آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بہت مثبت کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ماضی کی بعض غلطیوں اور پالیسیوں کے طعنے دینے اور اس کی آڑ میں تلخیاں اور بداعتمادی بڑھانے کا نہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس سے معاشرے اور عوام میں بھی بے چینی بڑے گی اور سیاسی قائدین کی قائدانہ کردار اور صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھیں گے جو کہ کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس ملک نے ان سیاستدانوں کو نہ صرف شناخت اور عزت بلکہ ہر ایک کو کئی بار حکمرانی اور قیادت کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے ایسے میں سب کا فرض ہے کہ اس ملک کی ساکھ، عزت، ترقی اور روشن مستقبل کا خیال رکھیں اور ذاتیات کو سیاست اور ریاستی معاملات سے دور رکھیں۔ جن اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا ہمیں سامنا ہے ان سے نمٹنے اور نکلنے کے لیے حالیہ تلخی اور کشیدگی کو ختم کرنا سیاسی قیادت کا فرض بھی ہے اور ایک امتحان بھی۔ اس لیے ملکی مفاد اور ساکھ کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket