معاشرے میں تشدد کا بڑھتا رحجان اور اس کے اثرات

معاشرے میں تشدد کا بڑھتا رحجان اور اس کے اثرات

عقیل یوسفزئی

ملک میں جاری سیاسی کشیدگی نے سماجی اور ذہنی طور پر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سطح پر تشدد کے واقعات اور منفی رویوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے. پشاور یونیورسٹی میں گارڈز کے ہاتھوں ایک استاد اور سیکیورٹی سپروائزر کی اموات اور اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں فائرنگ سےممتاز قانون دان لطیف آفریدی کی موت اس ضمن میں تازہ مثالیں ہیں.

گزشتہ روز لطیف آفریدی کی یاد میں منعقد ہونے والی ریفرنس میں متعدد اہم قایدین نے سماجی مسائل اور تشدد کے واقعات میں اضافے کو سیاسی کشیدگی اور بے چینی کا نتیجہ قرار دے کر اس پر تشویش کا اظہار کیا.
اس سے قبل پشاور کے ایک نجی سکول میں ایک پرچہ میں شامل مواد کے معاملے پر سینکڑوں سٹوڈنٹس نے جو توڑ پھوڑ کی وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا تاہم کسی نے بھی اس واقعے کا نوٹس نہیں لیا اور اس وقت حالت یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی ایک ہفتے سے بند پڑی ہوئی ہے اور ہزاروں سٹوڈنٹس نہ صرف احتجاج اور بائیکاٹ پر ہے بلکہ ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہورہا ہے. بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو ہمارے رویوں نے عدم تحفظ کی بدترین صورتحال سے دوچار کردیا ہے اور کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے.
ایک مقبول پارٹی کے سربراہ نے ملک کی سیاست کو تلخی اور کشیدگی کی جس نہج پر ڈال دیا ہے اس کے اثرات بہت منفی انداز میں پورے ملک پر مرتب ہورہے ہیں اور اس تمام معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس سے ہماری نئی نسل ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے جو کہ پالیسی ساز اداروں، والدین اور اساتذہ کے لیے اب ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے.
سیاسی کشیدگی، بد امنی اور اقتصادی بدحالی نے سب کو پریشان کرکے رکھدیا ہے اس لیے لازمی ہے کہ تمام قایدین سیاسی اور گروہی مفادات سے ہٹ کر معاشرے کی تعمیر پر توجہ دیں اور ایندہ کی اپنی نسلوں کو مذید متاثر ہونے سے بچانے کی کوشش کی جائے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket