قبائلی اضلاع کے عوام کا جایز مطالبہ اور مردم شماری
عقیل یوسفزئی
مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین نے پشاور اور اسلام آباد میں پریس کانفرنسیں کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ نئے انتخابات جاری مردم شماری کی بنیاد پر کیے جائیں اور قبائلی علاقوں میں اس بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کی جائیں.
ان کے مطابق قبائلی اضلاع کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے تاہم گزشتہ مردم شماری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات میں یہ 40 یا 50 لاکھ دکھائی گئی. جس کے باعث قومی اور صوبائی اسمبلی کے بہت کم حلقے ہمارے حصے میں آئے.
سچی بات تو یہ ہے کہ ماضی میں ان جنگ ذدہ علاقوں کے ساتھ جہاں دوسرے شعبوں میں ذیادتی ہوتی رہی وہاں ان کی آبادی کو کم دکھاکر ان کی نمائندگی کم کی گئی اور یہ رویہ انضمام کے بعد بھی جاری رہا.
گزشتہ مردم شماریوں کے دوران ان علاقوں میں دہشت گردی اور اس دوران نقل مکانی جیسے مسائل کے باعث لاکھوں لوگ رجسٹرڈ نہیں ہوسکے. اب چونکہ حالات ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں اس لیے ان کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کا ازالہ کیا جائے.
نہ صرف یہ کہ ان علاقوں میں ساتویں مردم شماری کے تحت نئے حلقوں کی تشکیل کی جائے بلکہ حلقوں کی تعداد بڑھانے پر بھی توجہ دی جائے. ساتھ میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ان شورش زدہ علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈز جاری کرکے ترقیاتی منصوبوں کا عمل تیز کیا جائے تاکہ جن مقاصد کی حصول کیلئے فاٹا مرجر کا تاریخی اقدام اٹھایا گیا تھا وہ مقاصد پورے ہوں.