گورنر خیبرپختونخوا کا سخت جواب
عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے ایف ایم سنو پختونخوا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور وزارت اعلیٰ اور جیل میں قید اپنے لیڈر کے مختلف نوعیت کے معاملات میں پھنس کر ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ گورنر راج سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے ان کو اور ان کی پارٹی کو سیاسی شہید بنایا جائے تاہم ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی تاہم اگر کسی نے بھی کسی احتجاج کی آڑ میں 9 مئی جیسے واقعات کا راستہ ہموار کرنے کی مہم جوئی کی تو انہیں پوری ریاستی طاقت کے ذریعے کچلا جائے گا کیونکہ صوبے کے وزیر اعلیٰ نہ صرف یہ کہ 9 مئی کے حملوں کے منصوبہ سازوں میں شامل ہیں اور وہ طالبان کو بھتہ دیتے ہیں بلکہ ان پر اپنے ایک ممبر صوبائی اسمبلی سمیت بعض دیگر کو قتل کرانے کے الزامات بھی ہیں۔ گورنر نے مذکورہ انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ وہ صوبے کے حقوق کی حصول، امن کے قیام اور بعض اہم پراجیکٹس کے لیے تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس قائم کرنے کی پلاننگ کررہے ہیں اور صوبے کو ایک ڈپریشن زدہ وزیر اعلیٰ کی رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ان کے مطابق وفاقی حکومت اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز ان کے ساتھ صوبے کے مسائل حل کرنے میں بھرپور تعاون کررہے ہیں اور متعدد اہم فیصلے اور پیکجز پایپ لاین میں ہیں جن میں بجلی ، پانی کے بقایاجات اور قبائلی اضلاع کی تعمیر نو اور انتظامی ضروریات کی فراہمی بھی شامل ہیں ۔ گورنر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ فورسز کے جو جوان اور آفیسرز عوام اور ملک کے امن کے لیے جانیں دے رہے ہیں صوبائی حکمران ان کی قربانیوں سے لاتعلق ہیں اور ان کا تمام فوکس اس بات پر ہے کہ دھمکیاں دیکر اپنی نااہلی اور ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹادی جائے۔
گورنر کا یہ انٹرویو اسی دن سامنے آیا جب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس سے چند گھنٹے قبل پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر کے بارے میں انتہائی سخت اور غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے تھے اور ان کا لب و لہجہ کسی بھی طور صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کے شایانِ شان نہیں تھا ۔ گورنر اور دیگر اہم حکومتی شخصیات کے بارے میں وزیر اعلیٰ نے جو الفاظ استعمال کیے گورنر نے انتہائی تحمل کے ساتھ ان کے نہ صرف جوابات دیے بلکہ ان پر دو تین ایسے سنگین الزامات بھی لگائے جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کے سنجیدہ حلقوں نے بھی گورنر کے الزامات کو درست مگر تشویش ناک قرار دیتے ہوئے اس بات کا نوٹس لینے کی ضرورت پر زور دیا کہ طالبان کو بھتہ دینے جیسے سنگین نوعیت کے الزام پر اس لیے خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی کہ صوبے کو ایک فیصلہ کن جنگ کا سامنا ہے اور ایسے میں اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں اس قسم کا دعویٰ کرنا انسداد دہشتگری کی تمام کارروائیوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ گورنر کے انٹرویو کے اگلے روز سے این پی کے صوبائی صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں افتخار حسین نے بھی اسی نوعیت کے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی کی نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردیاں ہیں اور عمران خان کی حکومت میں ہزاروں دہشت گردوں کو افغانستان سے واپس لایا گیا بلکہ ان کے بقول 2013 کے بعد ہر انتخابی مہمات میں ٹی ٹی پی نے پی ٹی آئی کے حق میں باقاعدہ مہم چلاتے ہوئے دہشت گردی کی مخالفت کرنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔
میاں افتخار اور گورنر کے ان مشترکہ نکات، دلائل اور خدشات کو زمینی حقائق اور جاری چیلنجز کے تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر بے چینی بڑھتی جارہی ہے تاہم سب سے افسوسناک بات وزیر اعلیٰ کا وہ لہجہ اور رویہ ہے جو کہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے کیونکہ ان کے جارحانہ انداز تخاطب کا کسی بھی طور دفاع نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے ان سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ غیر ضروری تصادم اور کشیدگی سے گریز کرتے ہوئے صوبے کو درپیش مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں اور چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔