سوات حملے کی آفٹر شاکس
صوبائی حکومت نے ملکی اور علاقائی دباؤ اور بعض اہم ممالک کی تشویش کا نوٹس لیتے ہوئے 22 ستمبر کو مالم جبہ سوات کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سفارتکاروں کے قافلے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ” پاداش ” یا غفلت برتنے پر ڈی آئی جی اور ڈی پی او سوات کے خلاف کارروائی کرکے ان کو سنٹرل پولیس آفس بلالیا ہے جبکہ واقعے کے پس منظر میں مبینہ غفلت کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ان تمام سفارتکاروں کو ایک رسمی خط لکھ کر ان کو مہمان نوازی کی باقاعدہ دعوت دی ہے جو کہ سوات گئے ہوئے تھے۔
یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک معاون خصوصی اور بعض ممبران اسمبلی نے انتہائی غلط بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلی فلور پر یہ کہہ کر پاکستان کے علاوہ اپنی حکومت کا بھی مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ صوبائی حکومت سفارتکاروں کے دورے سے بے خبر تھی ۔ یہ نہ صرف افسوس کی بات تھی بلکہ اس کو سفارتی تعلقات اور نزاکتوں کے پس منظر میں شرمناک بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس طرزِ عمل سے یہ بات پھر سے ثابت ہوگئی ہے کہ خیبرپختونخوا پر ایسے لوگ حکمران بنے بیٹھے ہیں جن کو ایسے معاملات ڈیل کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔
سفارتی تعلقات سے متعلق اس حکومت کی ” شاندار کارکردگی ” تو سب نے اسی مہینے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اس اعلان کی صورت میں بھی دیکھ لیا تھا جب انہوں نے وفاقی حکومت کی ڈومین میں چھلانگ لگاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا شوشہ چھوڑا تھا اور جس کے ردعمل میں افغان سفارتکاروں کو خود یہ وضاحت کرنی پڑی کہ ایسا کرنا ان کے دایرہ اختیار ہی میں نہیں ہے۔
ہے درپے غلطیوں یا پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی مہم جوئی نے صوبے کو تجربہ گاہ بنادیا ہے اور سفارتی ، صحافتی حلقوں میں نہ صرف اس حکومت بلکہ پورے صوبے کا مذاق اڑایا جارہا ہے حالانکہ یہ پارٹی سال 2013 کے بعد اتنے اہم مگر حساس صوبے پر حکمرانی کرتی آرہی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور خیبرپختونخوا کو مزید مذاق بننے سے قبل اس صوبائی حکومت کی سرگرمیوں ، حرکتوں اور پالیسیوں کا زیرو ٹاولرنس کی پالیسی کے تحت نوٹس لیا جائے اور ان ڈرامہ بازیوں کے خاتمے کے اسباب اور طریقے ڈھونڈے جائیں۔
عقیل یوسفزئی