تقسیم درتقسیم
سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی اکثریتی بنچ نے 12جولائی کے مختصر حکم کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ تفصیلی فیصلے پر ماہرین آئین و قانون اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ چونکہ قوم میں تقسیم پیدا ہو چکی ہے جس سے عدلیہ بھی محفوظ نہیں اس لئے اکثریتی فیصلے پر رائے عامہ بھی منقسم ہے۔ یہ تقسیم اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ مخالف فریق کی خانہ کعبہ میں عبادت کو بھی سوشل میڈیا ٹرولنگ کے ذریعے متنازعہ بنایا جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے عدالتوں کا حال یہ ہے کہ لوگ بنچ دیکھ کر فیصلے کی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ سیاست ہمارے ہر شعبے کو اس قدر لپیٹ میں لے چکی ہے کہ عدالت کا فیصلہ پڑھنے یا سمجھنے سے پہلے ہی ایک طبقہ اس کی تعریفیں شروع کر دیتا ہے جبکہ دوسرا اسے آئین و قانون کے خلاف قرار دینے میں جت جاتا ہے۔ اس تقسیم در تقسیم سے ملک و قوم کا جو بے پناہ نقصان ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ مگر اس سے بین الاقوامی طور پر بھی ملک کی سبکی ہوتی ہے۔ حالیہ تفصیلی فیصلے میں دہرایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی ہوئی اور مخصوص نشستیں اس کا حق ہے۔
پیش نظر نہ یہ بات ہے کہ پی ٹی آئی نے کئی بار تنبیہ کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کیوں نہ کیے؟ اور جو برائے نام انتخابات منعقد کیے گئے ان پر پارٹی کے اندر سے جو اعتراضات اٹھے ان کی شنوائی کس طرح ممکن تھی؟ انتخابی نشان چھینے جانا پارٹی کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ تھا۔ انتخابات کے بعد اپنے ارکان کو دوسری جماعت میں شامل کروانا بھی پارٹی کا اپنا “دانشمندانہ” فیصلہ تھا اور اس فیصلے پر داد بھی سمیٹی گئی۔
سنی اتحاد کونسل نے چونکہ الیکشن کمیشن کے پاس مخصوص نشستوں کے لیے کوئی لسٹ جمع نہیں کروائی تو اسے ان نشستوں سے محروم کر دیا گیا جس کے خلاف اس نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں پانچ رکنی لارجربنچ نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ اس استرداد کے خلاف اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں سے آٹھ رکنی اکثریتی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی تمام نشستیں تحریک انصاف کو دے ڈالیں۔ عدالت کے سامنے مسئلہ تو سنی اتحاد کونسل کا تھا کہ اسے مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں یا نہیں؟ فیصلے سے واضح ہوا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
مگر عدالت نے اپنی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی عام نشستیں بھی تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیں جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھی۔ اس حوالے سے مختصر حکمنامہ جاری کیا گیا تھا، تفصیلی فیصلہ خاصی تاخیر سے اس وقت جاری ہوا جب عدالت کی اندرونی سیاست کا پارہ اونچے درجوں کو چھو رہا تھا جس سے ثابت ہوا کہ معاملہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا نہیں بلکہ یہ عدالت کی اندرونی سیاست اور خلا کا شاخسانہ ہے۔
تفصیلی فیصلے میں بنیادی انسانی حقوق اور اعلیٰ روایات و اقدار پر زور دیا گیا ہے۔ بنچ کے دو ارکان نے آئین کے جن آرٹیکلز کی خلاف ورزی کی جانب اشارہ کیا اس کی وضاحت کرنے کی بجائے ان پر تنقید کی گئی ہے۔ دو ارکان نے آئین کے کم از کم پانچ آرٹیکلز کی خلاف ورزی پر سوال اٹھائے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا یا اس کی وضاحت نہیں ہوئی۔ دو ارکان کے اٹھائے گئے نکات قابل غور ہیں، بنچ کے یہ ارکان سبزی منڈی سے بیوپاری اٹھا کر نہیں بٹھائے گئے بلکہ یہ بھی اسی مروجہ طریقہ کار کے تحت سپریم کورٹ تک پہنچے ہیں جس کے تحت آٹھ ارکان یا دیگر معزز ججز پہنچتے ہیں۔
وضاحت کی بجائے کہا گیا کہ “دو ارکان کا عمل ججز کے منصب کے منافی ہے اور فیصلے سے اختلاف کا انداز مناسب نہیں”۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ ان دو ججز کو جب اختلافی نوٹ کا اختیار حاصل تھا اور انہوں نے اپنا آئینی اور منصبی فرض ادا کر دیا تو اس میں نامناسب کیا تھا؟ دو ججز کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ “سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے کر خود سے ریلیف تخلیق کیا ہے، اکثریتی فیصلے کے ذریعے آئین میں نئی شقیں شامل کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف دیا گیا ہے، ایسا کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہوگا، پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، آئین کے خلاف فیصلے پر کوئی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں، 80 ارکان اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں، ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا حتیٰ کہ اس کے چیئرمین بھی آزاد حیثیت سے میدان میں اترے۔
فل کورٹ کے دو ارکان نے اقلیتی فیصلے میں قابل غور نکات اٹھائے تھے انہیں یوں نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ روایات و اقدار کا اگر پاس رکھنا ہے تو دو ارکان نے ان روایات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ “مختصر فیصلے کو پندرہ دن گزر جانے کے باوجود تفصیلی فیصلہ نہ آ سکا، اختلافی نوٹ کا یہ جملہ سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے کہ “پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکلز 175 اور 185 میں تفویض شدہ دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا جبکہ آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہوگا”، مگر اس کی وضاحت آنے کی بجائے اسے نامناسب قرار دینا مناسب سمجھا گیا۔ جو مناسب طرز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس طرح اکثریتی ججز کو فیصلہ جاری کرنے کا اختیار اور حق حاصل ہے اسی طرح اقلیتی ارکان کو بھی یہی حق حاصل ہے، ان کا طرز عمل نامناسب کیوں ہو سکتا ہے؟ پھر انہوں نے آئین کے جن شقوں کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی ہے اسے آئینی ماہرین بھی درست سمجھتے ہیں۔
ایسے میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی اکثریتی ارکان کا حالیہ فیصلہ بھی “نظریہ ضرورت” قرار پانے کے قوی امکانات ہیں۔ اس فیصلے سے ملک میں بحران کا خاتمہ تو ممکن نہیں، البتہ بحران در بحران کا جنم لینا نوشتہ دیوار ہے۔ اور یہ تاثر مزید پختہ ہو گیا کہ یہاں آئین و قانون کی بجائے فیصلے پسند نا پسند کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ جس سے یقیناً ہماری عدلیہ کی رینکنگ مزید تنزلی اور قوم مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے۔
وصال محمد خان