رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اے این پی کے سابق لیڈروں اور چند درجن کارکنوں کے ہمراہ گزشتہ روز نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔ تاہم پی ٹی ایم کے مقبول رہنما منظور پشتین سمیت درجنوں دیگر رہنما اس پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی ایم نہ صرف تقسیم ہو چکی ہے بلکہ عملاً ختم ہو گئی ہے۔ نئی پارٹی کے جو اغراض و مقاصد تحریری شکل میں سامنے آئے ہیں ان میں پشتون نیشنلزم بہت کم اور ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس کا روایتی مصالحہ بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ اب تک محسن داوڑ ، افرا سیاب خٹک اور بشریٰ گوہر پشتون افغان نیشنلزم کا جھنڈا اور نعرہ لے کر جو شور مچاتے آرہے تھے وہ اس نعرے سے خود بھی مطمئن نہیں تھے یا اس سے مخلص نہیں تھے۔
پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم کو پشتونوں کو اکسانے کے لیے گزشتہ چند برسوں کے دوران جس طریقے سے استعمال کیا گیا اور جس طریقے سے اپنے ساتھیوں کو ایک باغیانہ سوچ کی بھینٹ چڑھا کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی وہ ایک الگ داستان ہے تاہم یہ سوال ضرور اٹھایا جائے گا کہ اگر یہ لوگ واقعی پشتون قوم پرست تھے تو ایک پشتون تحریک سے ان کا رخ ایک ملک گیر ڈیموکریٹک موومنٹ کی طرف کیوں اور کیسے موڑا گیا ؟یہ سوال اندھی تقلید کار نظر انداز کر رہے ہیں کہ نئی پارٹی میں منظور پشتین، ڈاکٹر سید علم محسود اور بعض دوسرے اہم رہنما شامل کیوں نہیں ہے؟
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جن لیڈروں نے یہ پارٹی قائم کی ہے ان میں 90 فیصد وہ ہیں جن کو ماضی قریب میں عوامی نیشنل پارٹی سے بوجوہ نکالا گیا ہے ۔ افراسیاب خٹک ،لطیف آفریدی ، بشریٰ گوہر ،عبداللہ ننگیال، جمیلہ گیلانی اور بعض دیگر نہ صرف اے این پی سے نکالے جا چکے ہیں بلکہ افراسیاب خٹک اور لطیف آفریدی کو کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے سیاسی کیریئر میں سب سے زیادہ پارٹیاں بنانے اور تڑوانے کا ریکارڈ بھی قائم کر رکھا ہے۔یہ دونوں رہنما اس سے قبل متعدد بار نیپ اوراے این پی میں بغاوت کرکے یا تو الگ گروپ کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں یا ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کئی بار مختلف نوعیت کی نظریاتی قلابازیاں لے کر اپنی سابقہ پارٹیوں کو نقصان پہنچایا۔
اس ضمن میں 23 سال قبل قومی انقلابی پارٹی اور مشرف دور کی اجمل خٹک کی سربراہی میں بننے والے نیشنل عوامی پارٹی کی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ انہوں نے ان دو پارٹیوں کی بنیاد بھی رکھی اور بعد میں باہمی اختلافات کے باعث ختم بھی کیا ۔نئی پارٹی میں یہ لیڈر اپنی روایت برقرار رکھتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے گا۔ جن لیڈروں نے اس پارٹی کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ان میں بشیر خان مٹہ بھی شامل ہیں جن کا ٹریک ریکارڈ بھی افراسیاب خٹک اور لطیف آفریدی سے کم نہیں۔ وہ بھی اے این پی کے اہم عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنیاد پر بعض حلقے کہہ رہے ہیں کہ یہ گروپ یا پارٹی پس پردہ اے این پی کو کمزور کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ این پی کے اہم رہنما پی ٹی ایم پر اس قسم کے الزامات لگاتے ہیں۔
افراسیاب خٹک، لطیف آفریدی، بشریٰ گوہر ،جمیلہ گیلانی اور بعض دیگر نہ صرف اے این پی کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں بلکہ یہ سینیٹرز اور ایم این ایز بھی رہ چکے ہیں جبکہ محسن داوڑ ، علی وزیر اور عبداللہ ننگیال بھی اس پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔ ان سب کا بیانیہ پشتون قوم پرستی کے حوالے سے اے این پی اور پختونخواہ میپ سے کافی سخت تھا۔ اسی بنیاد پر پی ٹی ایم جذباتی نوجوانوں کو راغب کرتی گئی۔ اب چونکہ اپنے منشور اور مقاصد کے لحاظ سے یہ پیپلزپارٹی کے طرز پر بن کر قوم پرست قوت نہیں رہی اس لیے جو لوگ سابقہ بیانیہ کی بنیاد پر ان لیڈروں کا ساتھ دے رہے تھے وہ ایک بڑے کنفیوژن کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ دوسرا گروپ فی الحال خاموش اور غائب ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اےاین پی، پختونخواہ میپ، قومی وطن پارٹی، پیپلز پارٹی اور بعض دیگر وہ پارٹیاں یا ان کی لیڈرشپ اب کیا کرے گی جو کہ بوجوہ پی ٹی ایم کو سپورٹ کرتی آرہی تھی۔جو جذباتی لوگ افغانستان میں ان لیڈروں کے حامی اور مداح تھے اور لروبر کا نعرہ لگا رہے تھے وہ اس فیصلے یا اعلان کے بعد کہاں کھڑے ہیں اس کا بھی کسی کو پتہ نہیں ہے ۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ہر شخص یا افراد کو پارٹی بنانے کا حق حاصل ہے اور اس پارٹی کو بھی اس حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا تاہم یہ سوال اٹھانا بھی ہر کسی کا حق بنتا ہے کہ پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم کو ان لیڈروں نے جس طریقے سے تلخیاں اور دوریاں بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور اس رویے سے جو نقصان ہوا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟