کویٹہ میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس اور پختون خوا میں کارروائیاں

عقیل یوسفزئی
کویٹہ میں صوبائی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیرصدارت منعقد ہوا. اجلاس میں متعلقہ حکام کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور کور کمانڈر کویٹہ جنرل آصف غفور بھی شریک ہوئے. اجلاس کو بلوچستان کی سیکورٹی صورتحال اور بارڈرز کے حالات سمیت اسمگلنگ کے ایشوز پر بریفنگ دی گئی اور ان اقدامات سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا گیا جو کہ امن و امان کی بحالی، اسمگلنگ کی روک تھام اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے کئے جارہے ہیں. اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ملک بالخصوص بلوچستان اور پختون خوا میں امن کی بحالی اور سیاسی، معاشی استحکام کے لئے نہ صرف یہ کہ نیشنل ایکشن پلان کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا بلکہ بلوچستان کی محرومی دور کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا. یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے ہر قیمت پر نمٹا جائے گا اور کسی کو ریاستی عملداری چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی. یہ بھی کہا گیا کہ بلوچستان سمیت دیگر تمام صوبوں سے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر مہاجرین کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی اور کراس بارڈر ٹیررازم کی طرح کراس بارڈر اسمگلنگ کی روک تھام پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی.
دوسری جانب پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے پیر کے روز خیبر پختون خوا کے تین مختلف علاقوں میں انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں کرتے ہوئے 2 مطوب حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ 2 کو گرفتار کرلیا. ایک کارروائی ڈیرہ اسماعیل جبکہ دوسری شمالی وزیرستان میں کی گئی اور دو حملہ آوروں کو نشانہ بنایا گیا. ایک اور کارروائی کے نتیجے میں ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں 2 دھشت گرد گرفتار کیے گئے. اس موقع پر سیکورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 2 دہشت گرد گرفتار کیے گئے. اس موقع پر ایک سہولت کار کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی.
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال ماضی قریب کے مقابلے میں کافی بہتر رہی اور اس دوران کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا. اس کے دو اسباب بتائے جارہے ہیں. ایک تو یہ کہ سیکیورٹی فورسز نے نئی صف بندی کرکے مسلسل کارروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کے خلاف جو کارروائی شروع کی گئی ہے اس نے نہ صرف افغانستان کی عبوری حکومت کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے کافی دباؤ سے دوچار کردیا ہے بلکہ پاکستان کے اندر ہونے والی کارروائیوں کے دوران درجنوں ایسے افغان باشندے بھی گرفتار کئے گئے ہیں جو کہ ٹی ٹی پی کی سہولت کاری میں ملوث تھے.
جہاں تک کویٹہ میں ہونے والے اجلاس کے فیصلوں کا تعلق ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان کی محرومیوں اور کمزور سول اداروں نے ریاست مخالف قوتوں کے کام کو آسان بنانے کا راستہ ہموار کردیا ہے اور اگر اس صوبے کے علاوہ خیبر پختون خوا کے مسائل کے مستقل حل پر بھی توجہ دی جائے تو بہت سی مشکلات میں واضح کمی واقع ہوگی اور عوام کا ریاست پر اعتماد بڑھ جائے گا.
تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ماضی قریب میں نیشنل ایکشن پلان کے اکثر نکات پر بوجوہ عمل نہ کیا جاسکا حالانکہ یہ وہ تاریخی دستاویز تھی جس پر پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں نے دستخط کرکے قومی اتفاق رائے کا اظہار کیا تھا. اگر نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات اور فیصلوں پر اب بھی عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تو اس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوں گے. اس کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سول اداروں اور حکومتوں کی فعالیت اور کارکردگی کو بہتر بنایا جائے کیونکہ ان کی کارکردگی عملاً لاتعلقی کی پالیسیوں پر مبنی دکھائی دے رہی ہے.

مزید پڑھیں: ورلڈکپ،پاکستانی ٹیم کی دوسری فتح

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket