وصال محمد خان
موجودہ متمدن دنیا میں اقوام کے درمیان تعلقات کادارومدارنفع نقصان کی بنیاد پرہوتا ہے کوئی ملک چاہے جتنابھی بہترین نظام رکھتاہو، امیرہو،شہری آسودہ حال ہوں لیکن اگراس کاکوئی فائدہ اسکے ہمسائے کونہیں توہمسایہ ملک کیساتھ تعلقات بھی درست خطوط پراستوار نہیں ہوتے اسی طرح کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے کتنا ہی فاصلے پرکیوں نہ ہولیکن اگرمفادات مشترک ہوں توانکے درمیان مثالی دوستی قائم ہوسکتی ہے یہ مثال توزبانِ زدعام ہے کہ دنیا میں سب کچھ بدلاجاسکتاہے مگرہمسائے نہیں بدلے جاسکتے اگرہمسائے بدلنے کی چیزنہیں توپھر ہرملک کویہ سوچناچاہئے کہ اس کے کسی اقدام سے اسکے ہمسائے کوزک نہ پہنچے بلکہ اسکے فائدے کیلئے کوشاں رہے دوسرے کے فائدے میں اس کااپنابھی فائدہ ہوتاہے بدقسمتی سے افغانستان اورپاکستان دوایسے ہمسایہ ممالک ہیں جن کے درمیان بہت سی قدریں مشترک ہیں دونوں ایک ہی خطے میں واقع ہیں،دونوں کے موسم انیس بیس کے فرق کیساتھ ایک جیسے ہیں،دونوں ممالک ایک ہی آٖفاقی مذہب اسلام کے پیروکارہیں کلمہ گوبھائی ہیں اوردونوں کے مفادات ایک دوسرے سے وا بستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام اورحکمرانان واعلیٰ حکام تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں کاامن ایک دوسرے سے جڑاہواہے کسی ایک ملک میں بدامنی اور جنگ وجدل کے اثرات سے دوسراملک محفوظ نہیں رہ سکتا 1979ء میں جب سویت یونین کے بدمست ہاتھی نے افغانستان کوروندناچاہا توپاکستان اسکی مدد کوآیا لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کارخ کیاجہاں انہیں اپنے ملک سے بڑھکرسہولیات فراہم کی گئیں اگرچہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ زدہ ملک کے عام شہری ہمسایہ ملک میں پناہ گزیں ہوسکتے ہیں مگرانہیں وہاں کاروبارکرنے اورکھل کرمن پسند جگہوں پررہائش اختیارکرنے کی اجازت نہیں ہوتی مگرافغان مہاجرین پاکستان میں کہیں بھی کسی بھی جگہ رہائش اختیارکرنے کیلئے مکمل طورپرآزادتھے انہوں نے یہاں من پسندشہروں،دیہات اورقصبات میں رہائش اختیارکی اوراپنے ملک سے کہیں زیادہ آزادی کیساتھ زندگی بسرکرتے رہے بلکہ تاحال کررہے ہیں سویت افغان جنگ کے بداثرات پاکستان پربھی پڑے یہاں کے شہروں،بازاروں،بس اڈوں اوردیگرمصروف مقامات پربم دھماکوں کاایک سلسلہ شروع ہواجس میں ہزاروں پاکستانی شہری لقمہء اجل بنے۔نائن الیون کے بعدامریکہ اوراسکے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیاتوایک مرتبہ پھرپاکستان کام آیالاکھوں افغان مہاجرین نے دوبارہ پاکستان کارخ کیااس مرتبہ جنگ کے بداثرات شدیدتھے اور پاکستان کے طول وعرض میں خودکش دھماکوں کاسلسلہ شروع ہواجوتاحال جاری ہے دوسال قبل جب افغان طالبان امریکہ اوراسکے اتحاد یوں کیساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں برسراقتدارآئے افغان طالبان کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے مطابق افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جاسکتی مگراس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے گزشتہ دوبرسوں کے دوران افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے درجنوں حملے ہوئے جن میں سینکرو ں معصوم اوربے گناہ شہری جان گنوابیٹھے ہیں پاکستان میں ہونے والے کسی بھی دہشت گردواقعے کے ڈانڈے افغانستان سے جاملتے ہیں رواں مہینے 6ستمبرکوجب پاکستانی قوم یوم دفاع منارہی تھی اسی دن علی الصبح افغان صوبے نورستان کی جانب سے چترال کے علاقے کیلاش پرحملہ کیاگیاجسے پاک فوج کے جری جوانوں نے ناکام بناکردہشت گردوں کوبھاری جانی نقصان سے دوچارکیااورحملہ پسپاکردیاگیااس واقعے میں پاک فوج کے چارجوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔اسی دن طورخم بارڈرپرافغان فورسزنے مفاہمت کی خلاف ورزی کر تے ہوئے ممنوعہ مقام پرچوکی تعمیرکرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں دونوں فورسزکے درمیان فائرنگ کاتبادلہ ہواکشیدگی بڑھنے پر پاکستان نے طورخم بارڈرہرقسم کی آمدورفت کیلئے بندکردی سرحدکی بندش سے سینکڑوں مسافروں اورمال بردارگاڑیوں کوشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑادونوں ممالک کے اعلیٰ حکام رابطوں کے نتیجے میں سرحدکھولنے پرمتفق ہوئے افغان عبوری حکومت نے افغان سرزمین کوپاکستان کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی اورچترال سے متصل سرحدسے کالعدم تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں کوپیچھے ہٹ جانے پر مجبورکیا۔اس ایک واقعے سے ثابت ہوتاہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ارکان جوکہ افغانستان میں مقیم ہیں یہ افغان حکومت کے زیراثر ہیں اگرافغان حکومت چاہے تویہ دہشت گردپاکستان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرسکتے مگر افغان حکومت ہونے والے معاہدے اورہمسائیگی کاپاس نہ رکھتے ہوئے ان دہشت گردوں کومنع نہیں کررہی ٹی ٹی پی کے اکثرحملوں کانشانہ خیبرپختونخواکے معصوم شہری بنتے ہیں اس خطے کے باسی گزشتہ 44برس سے اپنے افغان بھائیوں کیلئے قربانیاں دیتے آرہے ہیں جنگ افغانستان میں ہوتی ہے اورتکلیف میں خیبرپختونخواکے باشندے ہوتے ہیں اس صوبے کے باشندے بلاشبہ افغانوں کے محسن ہیں انہوں نے افغان پناہ گزینوں کوپناہ فراہم کی ہے جس میں سابقہ اورموجودہ رجیمزکے لوگ بھی شامل ہیں یہ لوگ برسہابرس سے خیبرپختونخوامیں مقیم رہے ہیں اب بھی بہت سے اعلیٰ حکام کے خاندان اوربچے پاکستان میں پرامن اورمحفوظ زندگی گزاررہے ہیں مگران احسانات کابدلہ ہمیشہ محسن کش اقدامات کی صورت میں دیاگیا افغان حکومت کوچاہئے کہ وہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کواپنے ملک سے نکالے یاان پرکڑی نظررکھے تاکہ وہ افغانستان کے محسنوں کونشانہ نہ بنائیں دنیامیں کہیں بھی احسان کابدلہ محسن کشی کی صورت میں نہیں دیاجاتاافغان حکومت کب تک اپنے محسنوں کاخون بہتادیکھتی رہیگی اگروہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصرہیں توپاکستانی فورسزکواجازت دی جائے کہ وہ اپنے دشمنوں کاخاتمہ کریں خیبرپختونخوا کے باسی افغان طالبان کے اس دوغلے روئیے سے تنگ آچکے ہیں اب اس صوبے کے لوگ یہ سوچنے پرمجبورہیں کہ افغانستان کیساتھ جڑے رہنے اورافغان باشندوں کی مددکرکے انہیں خونریزی کے سوا کچھ حاصل نہ ہواپختون قوم اس خونریزی سے تنگ آچکی ہے اور یہاں کابچہ بچہ چاہتاہے کہ خونریزی کایہ نارواسلسلہ اب بندہوناچاہئے۔
مزید پڑھیے: مولانا فضل الرحمان کی ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ پر تنقید کیوں؟