خیبر پختونخوا خصوصاً پشاور کے عوام کے لیے 13 اگست اس حوالے سے ہمیشہ قابل ذکر رہے گا کہ اس روز وزیراعظم عمران خان نے دوسرے حکومتی عہدیداران کے ہمراہ صوبے کے سب سے بڑے ٹرانسپورٹ منصوبے بی آر ٹی کا باضابطہ افتتاح کر دیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس منصوبے سے پشاور میں پہلے سے موجود رش کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور شہریوں کو ایک محفوظ اور جدید سفری سہولت مل جائے گی۔ ان کے علاوہ صوبے کے اکثر عوام نے بی آر ٹی کی باقاعدہ شروعات پر خوشی کا اظہار کیا کیونکہ یہ منصوبہ کافی عرصے سے نہ صرف زیرتعمیر اور زیرالتوا تھا بلکہ اپوزیشن اور بعض دوسرے متعلقہ حلقے اس کی تعمیل اور تکمیل میں ہونے والی تاخیر سے بڑے پریشان تھے۔ بعض حلقوں نے ابتدا میں اس کو غیر ضروری قرار دیا تو بعض کے مطابق کم لاگت میں اس سے بہتر منصوبہ شروع کیے جاسکتے تھے تاہم حکومت کا موقف رہا ہے کہ تاخیر اس لیے ہوئی کہ اس میں وقتا ًفوقتا ًتبدیلیاں کی جاتی رہی جبکہ اس کو بعض اُن علاقوں تک بھی پھیلایا گیا جو کہ پہلے سے اس کے نقشے یا پی سی ون میں شامل نہیں تھے۔
سال 2017 کے دوران جب سابق وزیراعلی پرویز خٹک نے اس منصوبے کی سنگ بنیاد رکھی تو انہوں نے اعلان کیا کہ اس کو چھ ماہ کے ریکارڈ عرصے میں مکمل کیا جائے گا۔ انکی دلیل تھی کہ اس منصوبے سے نہ صرف پشاور میں رش کا مسئلہ حل ہوجائے گا بلکہ عوام کو جدید سفری سہولتوں سمیت کاروباری اور معاشی فوائد بھی حاصل ہونگے اس منصوبے کی فنڈنگ کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ معاہدہ کیا گیا جس کے فوراً بعد ہنگامی بنیادوں پر اس کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تاہم منصوبے کی طوالت بعض درکار تبدیلیوں اور موسمی مشکلات کے باعث نہ صرف متعدد مشکلات پیش آئیں بلکہ بعض تکنیکی مسائل یا غلطیوں نے بھی اس کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالی رکھیں جس کے باعث عوام، اپوزیشن اور کاروباری حلقوں نے شدید احتجاج کیا ۔جبکہ بعض سیاسی قوتوں اور تنظیموں نے پشاور ہائی کورٹ اور نیب سے بھی رجوع کیا جہاں اب بھی بی آر ٹی سے متعلق کیس زیر سماعت ہے ۔اس اعتراض میں یہ اعتراض بھی شامل تھا کہ اس کی کل لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور تخمینہ بعض سیاسی حلقوں نے 90 سے سو ارب روپے تک بتایا تاہم متعلقہ وزراء نے افتتاح سے قبل بتایا کہ اس منصوبے پر تقریباً 70 ارب کی لاگت آئی ہے۔ منصوبہ تقریبا ً30 سے 35 کلو میٹر کی لمبائی کا حامل ہے جس میں 30 اسٹیشن بھی شامل ہیں۔
اس منصوبے کے لیے باہر سے 220 جدید بسیں منگوائی گئی ہیں جن میں سے انٹرنیٹ سمیت دوسری جدید سہولیات موجود ہیں جبکہ حکام کا دعوی ہے کہ اس کے ذریعے کم اور مناسب کرایہ پر شہریوں کو سفر کی سہولت حاصل ہوگی اور ان کو ان ناکارہ اور پرانی گاڑیوں سے بھی نجات مل جائے گی جو کہ رش کے علاوہ بعض دوسرے مسائل کا بھی سبب بنے ہوئے ہیں۔ بی آر ٹی منصوبے میں کار پارکنگ کے نظام کے علاوہ متعدد مقامات پر شاپنگ پلازے بھی شامل ہیں جن کی دکانوں اور مارکیٹوں کے آمدن سے اس منصوبے کی دیکھ بھال ہوسکے گی۔ متعدد پلازے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ منصوبے کا 90 فیصد مجموعی کا م مکمل کیا جا چکا ہے۔
حکومتی وزراء اور حکام کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے تقریباً ایک لاکھ شہری روزانہ کی بنیاد پر سفر کر سکیں گے جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے نہ صرف پشاور ایک جدید شہر میں تبدیل ہو گا بلکہ سیاحت اور کاروبار کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ فوائد اور نتائج کے بارے میں جو دعوی اور مخالف تبصرے جاری ہیں ان تمام سے قطع نظر اکثر لوگ اس منصوبے کو پشاور کے لیے کافی سود مند قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے رش اور ٹریفک کے مسائل کم ہونے میں مدد ملے گی ۔
اس تمام منصوبے پر غالباً اس لیے بھی اعتراض کئے گئے کہ یہ اپنی طوالت بجٹ اور ڈیزائننگ کے حوالے سے باقی منصوبوں سے کافی مختلف اور منفرد ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کی تعمیر میں بظاہر کافی وقت لگا۔ دیر آید درست آید کے مطابق سچ بات تو یہ ہے کہ اب اس کی کامیابی کے لیے حکومت تاجروں شہریوں اور مسافروں کو مل کر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا تا کہ پشاور کے ٹریفک نظام کو بہتر بنایا جا سکے اور اس تاریخی شہر سے رش ، ٹریفک جام، آلودگی اور گندگی کا ممکنہ خاتمہ کیا جاسکے۔