خیبر پختون خوا کے اقتصادی اور انتظامی چیلنجز

عقیل یوسفزئی
خیبر پختون خوا میں گزشتہ 2 ہفتوں سے سیکورٹی کے مسائل ماضی قریب کے مقابلے میں کافی بہتر ہوگئے ہیں اور سیکورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیوں کے بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں تاہم صوبے کے انتظامی معاملات اور اقتصادی حالات کو کسی طور اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا. ایک بار پھر اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ وزارت خزانہ کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں. بجلی کے بعد گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی جانب سے صوبے میں گزشتہ دو تین دنوں سے سی این جی اسٹیشنز کی ہڑتال ہے تاہم حکومت کوئی ایکشن نہیں لے پارہی. پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ٹرانسپورٹرز کرایہ کم نہیں کررہے مگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جارہی. لگ رہا ہے کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو اپنے مسائل کے حل کیلئے مدد کرنے میں ناکام ہوتی آرہی ہے کیونکہ باقی 3 صوبوں میں کوئی اقتصادی بحران نہیں ہے حالانکہ پختون خوا حالت جنگ میں ہے اور اس کے مالی، انتظامی امور اور مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہونے چاہئیں. گزشتہ دنوں وزیراعظم پشاور کے دورے پر آئے مگر انہوں نے کوئی اہم اعلان نہیں کیا کیونکہ صوبائی حکومت ماضی کی حکومت کی طرح غیر فعال دکھائی دے رہی ہے.
گورنر غلام علی نے جمعرات کو اسلام آباد میں وزیر خزانہ شمشاد آختر سے ملاقات کرکے ان کو صوبے کے جاری اقتصادی بحران سے آگاہ کیا. دوسری جانب صوبے کے وزراء اطلاعات، خزانہ نے صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا کہ گزشتہ سال سے وفاقی حکومت پختون خوا کے 233 ارب روپے کا مقروض ہے یعنی مرکز کے ذمے اربوں روپے واجب الادا ہے. یہ بھی بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے سیلاب کی مد میں اعلان کردہ 20 ارب بھی نہیں دیے ہیں. یہ بھی کہا گیا کہ صوبے میں نہ صرف یہ کہ 8 نئے اضلاع کا اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کی آبادی بھی 58 لاکھ بڑھ گئی ہے.
دوسری جانب صوبے کو گورننس کے ایشوز کا تاحال سامنا ہے. اس ضمن میں جہاں ضلع کرم میں ایک بار پھر زمینوں کے تنازعے نے جنم لیا وہاں سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں نامعلوم افراد نے اس گرلز کالج کو نذر آتش کردیا جس کی بحالی اور تعمیر نو پر پاک فوج نے حال ہی میں کروڑوں روپے خرچ کئے تھے. عوامی اور صحافتی حلقوں نے اس واقعے کو ضلعی انتظامیہ کی نااہلی اور ناکامی قرار دیکر اس پر سخت ردعمل اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے. اسی طرح بعض دیگر اضلاع میں بھی صوبائی انتظامیہ بعض مقامی مسائل اور تنازعات کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے جس کا نوٹس لینا چاہئے. صوبے کو غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کی واپسی یا انخلاء کے مسئلے کا بھی سامنا ہے کیونکہ مہاجرین کی اکثریت پختون خوا میں مقیم ہے. اس ضمن میں بھی حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے.
اس تمام صورتحال سے نمٹنے کیلئے لازمی ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنی کارکردگی اور فعالیت کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی تو دوسری طرف وفاقی حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس جنگ زدہ صوبے کے اقتصادی بحران اور مسائل کے حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket