احساس پروگرام کا پس منظر، 2010 کا سروے اور ضم شدہ اضلاع

کرونا وائرس جہاں انسانی زندگی کے لیے بڑا خطرہ بنا ہوا ہےوہاں معاشرے پر اس کے معاشی ، معاشرتی اور نفسیاتی اثرات بھی تیزی کے ساتھ اثر انداز ہورہے ہیں ۔ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی تدابیر اور لاک ڈاؤن ہی بہترین طریقہ ہے تاہم ریاستوں کے لیے لاکھ ڈاؤن یا ایسی دوسری پابندیوں کی صورت میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل کو نظرانداز کرنا نہ صرف یہ کہ ناممکن ہے بلکہ ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔
پاکستان چونکہ نسبتاً غریب ملک ہے اس لیے حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی ابتدا ءمیں کاروباری اور معاشی سرگرمیوں پر سخت پابندی سے اس لیے گریز کیا کہ عام لوگ خصوصا ًمزدور پیشہ طبقہ متاثرنہ ہو۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اس وبا ءیا بحران سے کم از کم پانچ کروڑ مزدور پیشہ لوگ متاثر ہوگئے ہیں جبکہ پہلے ہی سے صورتحال خراب تھی ۔ اس چیلنج اور صورتحال سے نکلنے کے لیے حکومت نے منفرد پیکجز اور اقدامات کا اعلان کیا ۔ قیمتیں کنٹرول اور کم کی گئیں، بلز کم کیے گئے اور فیسوں میں کمی لائی گئی ، آن لائن سروسز مہیا کی گئیں، ٹیکسز معاف یا کم کیے گئے جبکہ پی ٹی ایم اے، محکمہ ریلیف اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذریعے منفرد امدادی اقدامات کیے گئے اور اس مقصد کے لیے اربوں روپے دیے گئے۔ اس سلسلے میں جس پروگرام کے ذریعے ضرورتمند شہریوں کی ماہانہ کی بنیاد پر مالی معاونت کی گئی وہ احساس پروگرام ہے جس کی مجموعی کارکردگی نہ صرف بہت بہتر رہی بلکہ اس کو شفاف بنانے کی کوشش بھی کی گئی اور اس کی جانچ پڑتال اور نگرانی کو انتہائی شفاف جدید اور موثر بنایا گیا ۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ثانیہ نشتر اس پروگرام کی سربراہ ہیں جنہوں نے اس سے قبل متعدد عالمی اداروں میں بہترین خدمات سرانجام دی ہیں اور ملکی اور عالمی سطح پر ان کی مہارت اور خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ وہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی ہیں جبکہ ماضی میں وفاقی سطح پر پاکستان میں صحت کے فروغ کیلئے متعدد تاریخی خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ بعض حلقے احساس پروگرام کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا تسلسل یا نقل قرار دے رہے ہیں حالانکہ وہ پروگرام بھی کسی پارٹی کا سیاسی پروگرام نہیں تھا بلکہ ریاست پاکستان کا پروگرام تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ احساس پروگرام کی ڈیٹا کی مد میں اُس سے مدد لی گئی اور موجودہ حکومت نے اس پروگرام سے کرپشن اور بدانتظامی ختم کرنے پر خصوصی توجہ دے کر لاکھوں غیر مستحق افراد کو نکال باہر کیا۔ اس ضمن میں صوبہ خیبر پختونخواہ کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں 400 سے زائد سرکاری افسران اور اہلکار اس پروگرام سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے تھے۔ بعد میں موثر ترکیب کو عمل میں لایا گیا۔ بنیادی طور پر احساس پروگرام کا مقصد مستقل بنیادوں پر انتہائی غریب اور ضرورت مند لوگوں کی مالی اور کاروباری معاونت یا سرپرستی ہے تاکہ اُن کو اِن کے پاؤں پر کھڑا کرکے غربت میں کمی لائی جاسکے ۔ کرونا بحران کے بعد نئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اس پروگرام کو وسعت دی گئی جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوئے اور مزید ہو رہے ہیں۔ اسے احساس کفالت نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے متعدد درجہ بندیاں کی گئی ہیں تاکہ ضرورتمندوں کی حالت اور ضرورت کو دیکھ کر ان کی مدد کی جائے جبکہ اس کو پھیلانے کے لیے بھی مختلف درجہ بندیاں بنائی گئی ہیں کیونکہ کروڑوں متاثرین یا ضرورتمندوں کو بروقت اور شفاف امداد فراہم کرنا آسان کام نہیں ہے۔اِس ضمن میں پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں صحت انصاف کارڈ کی طرح احساس پروگرام کو بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ ایک مشکل کام اس لیے ہے کہ ایک تو دو سال قبل تک یہ علاقے مین سٹریم ادارہ جاتی نظام سے محروم تھے اوپر سے یہاں اس قسم کے پراجیکٹس کے لیے ڈیٹا تک دستیاب نہیں تھا۔ اس کے باوجود متعدد ضم شدہ اضلاع کرونا سے قبل اور اس کے بعد اس پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ حکومتی حکام کے مطابق اس مقصد کے لیے طریقہ کار کے مطابق میسج کے ذریعے جانچ پڑتال کے نظام کو استعمال کیا گیا اور جانچ پڑتال کے بعد ضرورت مند افراد کو امداد کی فراہمی شروع کی گئی۔ حکام کے مطابق شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان سے اس پروگرام یا امداد کے لیے ساٹھ، ساٹھ ہزار سے کچھ زائد پیغامات وصول کیے گئے جن کی جانچ پڑتال کا کام شروع کیا گیا اور اب ثانیہ نشتر نے خود اعلان کیا ہے کہ کیٹگری 3 کے تحت ان دونوں اضلاع کو آئندہ چند روز کے دوران امداد کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔ ان کے مطابق طریق کار میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ دوسرے علاقوں کے برعکس ان دونوں اضلاع میں 2010 کا سروے نہیں ہوا تھا کیونکہ وہاں امن و امان کی صورتحال خراب تھی جبکہ دوسرے علاقوں کے لیے 2010 کا سروے ہی زیراستعمال لایا جارہا ہے۔ انھوں نے عوام اور متاثرین کو یقین دلایا ہے کہ دونوں اضلاع سمیت تمام علاقوں کو ترتیب وار طریقہ کار کے مطابق یہ پروگرام پہنچایا جائے گا۔ بدقسمتی سے بعض سیاسی اور صحافتی حلقے طریق کار سے بے خبری کے باعث منفی خبریں دے رہے ہیں جو کہ افسوسناک ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket