وصال محمد خان
وطن عزیزمیں عام انتخابات کانعقاد ہونے کے بعد نتائج بھی سامنے آچکے ہیں جس کے بعد وفاق میں مخلوط حکومت بننے کے قوی امکانات نظرآرہے ہیں اس مقصد کیلئے حسب روایت سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطوں اورجوڑتوڑکاآغازبھی ہوچکاہے ۔قومی اسمبلی نتائج کے مطابق تحریک انصاف سے متعلق آزادارکان کی تعداد92ہے چونکہ انتخابات میں تحریک انصاف کوانٹراپارٹی انتخابات کے قابل قبول عدم انعقادپر انتخابی نشان سے محروم ہوناپڑاتھااسلئے اسکے نومنتخب ممبران آزادارکان تصورہونگے اورالیکشن رولز یاایکٹ کے مطابق آزاد رکن کو کامیابی کانوٹیفکیشن جاری ہونے کے72گھنٹوں یا تین دن میں کسی جماعت کیساتھ وابستگی اختیارکرنی پڑتی ہے اگروہ ایسانہیں کرتاتواس کی آزادحیثیت برقراررہتی ہے اوراس پرسیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے ارکان کے قوانین لاگونہیں ہوتے۔ پشتومیں کہتے ہیں کہ ‘‘آزادسڑے خویومارغہ دے ،چہ چااونیودھغہ دے’’یعنی آزادشخص ایک ایساپرندہ ہے جوجس کے ہاتھ آیااسی کاہوا۔تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے92ارکان بطورِآزاد کامیاب ہوئے ہیں جوقانونی طورپر آزادہیں اگروہ تین دن کے اندرکسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیارکرتے ہیں تووہ قانوناًاسکے مجازہیں۔ اب یہ توآنے والے دودن کے اندرواضح ہوجائیگاکہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟آیاوہ دوبڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کرتے ہیں یاپھرپارٹی ہدایات پرعمل پیرا ہوتے ہیں اعلیٰ جمہوری اقدار کاتقاضا ہے کہ کوئی کسی کوتوڑنے کی کوشش نہ کرے اورنہ ہی کوئی خود ٹوٹے۔جہاں تک قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کاتعلق ہے تومسلم لیگ (ن) 73نشستوں کیساتھ دوسری بڑی پارٹی ابھرکرسامنے آئی ہے تین آزادارکان کی شمولیت سے یہ تعداد 76ہوچکی ہے ۔ ایم کیوایم17 ،جے یوآئی (ف)3،مسلم لیگ(ق)3اوراستحکا م پاکستان پارٹی2نشستوں کیساتھ اسکی اتحادی جماعتیں ہیں۔ اس اتحادکی نشستیں 100سے متجاوزہیں جبکہ قومی اسمبلی میں حکومت سازی کیلئے فی لحا ل 134ارکان درکارہیں مخصوص نشستیں الاٹ ہونے پرسادہ اکثریت کیلئے172ارکان درکارہونگے ۔پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس 54نشستیں ہیں اگرن لیگ اورپی پی کااتحادہوجاتا ہے جس پرکام جاری ہے اورقوی امکانات ہیں کہ یہ اتحادقائم ہوجائے تواسے حکومت سازی کیلئے درکار اکثریت باآسانی حاصل ہوجائیگی ۔دوسری طرف تحریک انصاف قائدین مسلسل یہ ڈھنڈوراجاری رکھے ہوئے ہیں ۔کہ انہیں دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے ۔ایک لیڈر170تودوسرا180ارکان کادعویٰ کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں جویقیناًلغودعویٰ ہے وہ اپنے دعوے کی دلیل میں انتخابی نتائج کی تاخیر کوبطورثبوت پیش کررہے ہیں یاپھراپنے پاس موجودغیرمصدقہ فارم45کواپناثبوت قراردے رہے ہیں۔ امکان اغلب ہے کہ دیگران گنت دعوؤں کی طرح اس دعوے کی قلعی بھی عدالتوں میں کھل جائے۔ یہ انتخابی نشان کیس میں بھی عدالت عظمیٰ کے سامنے کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصررہے مگربضدبھی رہے کہ چونکہ یہ غمزدہ ہیں ،انکے لیڈرقانونی اوراخلاقی جرائم میں سزایافتہ اورپابند سلاسل ہیں، اسلئے یہ مظلوم ہیں اورمظلومیت کی بنیادپرانہیں انتخابی نشان الاٹ کیاجائے۔ کچھ یہی حالت170یا180سیٹوں کی بھی ہونے والی ہے۔ 2002ء کے انتخابات سے قومی اسمبلی کی نشستیں 217سے بڑھکر342ہوچکی ہیں بائیس سال قبل سے حالیہ انتخابات تک پانچ انتخابات منعقدہوئے ہیں مگر کسی کے نتائج دودن سے قبل مکمل نہیں ہوپائے جبکہ حالیہ انتخابات کے95فیصدنتائج 48گھنٹے میں آچکے تھے تاخیرکا واویلامچانے والے ان حقائق کوبھی مدنظررکھیں کہ ملک بھرکے860حلقوں میں انتخابات منعقدہوئے اگرہرنتیجہ مرتب ہونے اور اناؤنس ہونے میں تین منٹ لگے تویہ2580منٹس بنتے ہیں۔جبکہ 24گھنٹوں میں 1440منٹس ہوتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں تقریباً 6 کروڑووٹروں نے اپناحق رائے دہی استعمال کیا۔اس قدروسیع وعریض ملک اوراس بڑی تعدادمیں ووٹوں کے نتائج مرتب کرنے میں تھوڑی سی تاخیرکوبے قاعدگی قرارنہیں دیاجاسکتا۔بین الاقوامی ادارے ،یورپی یونین اور امریکہ کے پاکستانی انتخابات پر تنقیدپی ٹی آئی پروپیگنڈے کااثرہے پھرتحریک انصاف نے ان ممالک اوراداروں کی رائے اپنے حق میں کرنے کیلئے فرمزکی خدمات بھی حاصل کررکھی ہیں جس سے متاثرہوکرپاکستانی انتخابات کے بارے میں منفی رائے کااظہارکیاگیاجوحقائق کے منافی ہے۔ تحریک انصاف چونکہ واویلا مچانے اوررولاڈالنے کوہی سیاست سمجھ بیٹھی ہے اوراس روش نے اسے انتخابات میں غیرمتوقع طورپرجزوی کامیابی بھی عطاکر دی ہے ۔مگر ملک اورریاست ہمیشہ رولاڈالتے رہنے اورشورمچاتے رہنے سے نہیں چلتے کرکٹ میچ والابخار پیداکرکے اسکے بل بوتے بغیرکوئی کام کئے، بناکسی منشوراورپروگرام جونشستیں حاصل ہوسکتی تھیں وہ مل چکی ہیں۔ اب تحریک انصاف قائدین کودانشمندی اورتدبرکامظاہرہ کرتے ہوئے جہاں انکی پوزیشن بہتراورواضح ہے وہاں حکومت سازی پرتوجہ دینی چاہئے اورجہاں پوزیشن کمزورہے وہاں اپوزیشن کی نشستیں سنبھالنے کی تیاری کرنی چاہئے۔ وطن عزیزکے موجودہ ابترمعاشی حالات مزیدانتشاراورسیاسی عدم استحکام کے متحمل نہیں لہٰذاملک وقوم کامفاد اور بہتری اسی میں ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج کھلے دل سے تسلیم کئے جائیں اورانتخابات کے بخارسے نکل کرملک وقوم پررحم کیا جائے ہمیشہ کی گالم گلوچ ،فضول ،غیرضروری اورلایعنی نعروں سے معاشرے نہیں پنپتے اورملک آگے نہیں بڑھتے ،ترقی نہیں کرتے، بلکہ یہ ناجائزروش ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کاسبب بنتے ہیں ۔موجودہ ابتر معاشی حالات،ملکی اورقومی سلامتی کودرپیش چیلنجزکاتقاضاہے کہ تمام رنجشیں بھلائی جائیں انتخابی نتائج سے بھی ظاہرہورہاہے کہ عوام نے مفاہمت کاراستہ دکھایاہے۔ خیبرپختونخوامیں پی ٹی آئی ،پنجاب میں مسلم لیگ(ن)، سندھ میں پیپلزپارٹی ،بلوچستان میں تین جماعتوں اورقومی اسمبلی کے منقسم مینڈیٹ سے بھی مفاہمت کا یہ پیغام دیاگیاہے کہ تمام جماعتوں کوحصہ بقدرجثہ مل چکاہے، اب اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی جائیں، اقتدارکی لڑائیوں کاخاتمہ کیاجائے ، اپنے مینڈیٹ اورتوانائی کو بے جامحاذآرائی اورسیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی بجائے عوامی مسائل کیلئے بروئے کارلایاجائے۔