تیر پہ ھیر باقی روزگار
عقیل یوسفزئی
پاکستان میں 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے مینڈیٹ کے تناظر میں انتقال اقتدار کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں اور ڈیڈلاک کی جو صورت حال بنی ہوئی تھی وہ سیاسی قائدین کی گزشتہ روز کی ملاقاتوں اور مشاورت کے بعد ختم ہوگئی ہے ۔ حسب توقع مرکز یا وفاق میں مسلم لیگ ن میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت بننے جارہے ہیں۔ اس حکومت کے قیام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ تحریک انصاف کو سخت کنفیوژن کا سامنا ہے کیونکہ یہ نہ تو بعض آئینی اور تکنیکی رکاوٹوں کا کوئی توڑ نکال سکی اور نہ ہی اسے قومی اسمبلی میں درکار مینڈیٹ یا اکثریت حاصل ہے۔ پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی جماعتی فیصلے کے مطابق حکومت سازی کا معاملہ طے پایا گیا ہے اور یہاں مریم نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو اس کی ضرورت سے بھی زیادہ مینڈیٹ اور اکثریت حاصل ہے اس لیے وہاں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بلوچستان میں بھی مجوزہ حکومت سازی کا خاکہ کافی حد تک واضح ہے ۔ یہاں پیپلز پارٹی ، جے یو آئی اور مسلم لیگ ن آسانی کے ساتھ ایک مخلوط حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں ہیں تاہم یہ طے کرنا باقی ہے کہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ کس پارٹی کو دیا جائے گا ۔ شورش زدہ صوبے یعنی خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف نے اپنے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور کو وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے اور بعض آئینی ، تکنیکی رکاوٹوں کے باوجود یہاں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگی اگر چہ سیاسی ، صحافتی اور عوامی حلقوں کی جانب سے علی امین گنڈاپور کی نامزدگی پر اس کے پولیٹیکل کیریئر ، جارحانہ پن اور بعض انتہائی تلخ حقائق کے تناظر میں شدید نوعیت کا مخالفانہ ردعمل سامنے آیا ہے اور یہ تاثر بہت عام ہے کہ عمران خان نے بعض سنجیدہ اور سینیئر رہنماؤں کی موجودگی میں گنڈاپور کا انتخاب محض اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ ان کو بوقت ضرورت ماضی کے اپنے وزراء اعلیٰ کی طرح شہباز شریف کی زیر قیادت بننے والی حکومت کے خلاف استعمال کرسکے۔ یہ تاثر حقائق پر مبنی ہے اس پس منظر میں صوبے کے عوام شدید نوعیت کی پریشانی اور تشویش سے دوچار ہیں ۔
اس تمام پریکٹس میں سب سے اچھی بات یہ سامنے آئی ہے کہ تقریباً تمام سنجیدہ قائدین اور پارٹیوں نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نہ صرف یہ کہ بہت بردباری کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اہم ترین قائدین کا چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر جاکر یکجھتی کا پیغام دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل میں اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے گی جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے ۔ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کے ایک نئے سفر کا آغاز ہونے جارہاہے تاہم اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ” ھیر پہ ھیر باقی روزگار” والا فارمولہ اپناکر ماضی کا رونا رونے کی بجائے مستقبل بینی کا عملی مظاہرہ کیا جائے.