اوپن ٹرائل کے مطالبے پر سیکورٹی ذرائع کا ردعمل

اوپن ٹرائل کے مطالبے پر سیکورٹی ذرائع کا ردعمل

سیکورٹی ذرائع نے سابق وزیراعظم عمران خان کے اس مطالبے پر شدید ردعمل اور دوٹوک موقف کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے جنرل ( ر ) فیض حمید کے اوپن ٹرائل کی تجویز پیش کی تھی۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کون ہوتے ہیں جو کسی کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کریں ؟ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر ایسے کسی معاملے میں سابق وزیراعظم کے کسی ٹرائل کی نوبت اور ضرورت پیش آئی تو اس پراسیس کا اوپن ٹرائل ضرور ہوگا تاکہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ موصوف کیا کچھ کرتے اور کراتے رہے ہیں۔

یہ بات بہت عجیب ہے کہ اپنے پہلے بیان میں عمران خان اور پارٹی کے دوسرے عہدے داروں نے فیض حمید کی گرفتاری کو فوج کا اندونی معاملہ قرار دیا اور اس سے آن دی ریکارڈ لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ۔ تاہم چند روز قبل بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ دیا کہ فیض حمید کو ان کے خلاف بطور وعدہ معاف گواہ بنایا جاسکتا ہے ۔ اس پر بحث جاری تھی کہ اوپن ٹرائل کے مطالبے کا بیان سامنے آگیا حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ فیض حمید کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی گئی ہے اور کورٹ مارشل کا طریقہ کار بہت واضح ہے اس کے باوجود اس طرح کے بیانات سمجھ سے بالاتر ہیں۔

لگ یہ رہا ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کے اقدام نے مذکورہ پارٹی کو بوجوہ ڈپریشن اور خوف سے دوچار کردیا ہے اور فریقین کے درمیان 9 مئی کے واقعات سمیت بعض دیگر ریاست مخالف گھٹ جوڑ اور ” سہولت کاری” کے جو ثبوت اداروں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اس نے سابق وزیراعظم کو حواس باختگی سے دوچار کردیا ہے ۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس پارٹی کے ایک اور پرجوش لیڈر شیر افضل مروت نے ” فرمایا” ہے کہ فیض حمید کی حمایت کے باعث ان کی پارٹی کو نقصان اور بدنامی سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ کون کیا کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے یہ شاید اس پارٹی کی قیادت کو بھی معلوم نہیں یا یہ کہ پارٹی کو شدید نوعیت کے تنظیمی بحران اور اختلافات کا سامنا ہے ۔ بسا اوقات بہت مضحکہ خیز قسم کے بیانات بھی سامنے آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات کے بعد شیر افضل مروت نے کہا کہ خان صاحب نے ان کو گلے لگایا تھا ۔ تاہم اگلے روز خان صاحب کی ہمشیرہ نے اس کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ خان نے مروت کو گلے نہیں لگایا تھا بلکہ انہوں نے صرف ہاتھ ملایا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی ” اطلاعات عالیہ” اور تبصروں کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے اور اس میں خبریت کیا ہے؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قسم کی ڈرامے بازیوں سے گریز کیا جائے اور صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے سنجیدہ طرز عمل اختیار کیا جائے۔

 عقیل یوسفزئی

About the author

You may also like

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket