عقیل یوسفزئی
ملک میں بعض لوگوں نے عجیب قسم کی سیاسی اور صحافتی ہلڑ بازی شروع کررکھی ہے. کسی کو کوئی سمجھ اور ادراک نہیں کہ وہ کیا کہہ اور کررہا ہے. نہ ہی کسی کو منفی اثرات اور نتائج کا کوئی اندازہ اور احساس ہو رہا ہے. ہر کوئی اپنی مرضی کا مخصوص راگ الاپ رہا ہے.
سیاستدان صحافت تو صحافی سیاست کرنے لگے ہیں. سیاست کو کھیل تو کھیل کو سیاست سمجھ کر “کھیلا” جارہا ہے. طوفان بدتمیزی کا ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ کسی کو کسی کی بات سمجھ میں نہیں آرہی.
رہی بات عوام کی تو ان میں سے اکثر اس صورتحال سے لاتعق تو بہت سے بیزار نظر آ رہے ہیں. باقی زندہ باد مردہ باد کے شوق ناتمام میں مصروف ہیں یا اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا ہوکر دوسروں کے علاوہ اپنی عاقبت بھی خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں.
سابق حکمران موجودہ کو نہیں مان رہے اور اقتدار اپنا پیدایشی حق سمجھتے ہیں تو دوسری طرف موجودہ حکمران اب بھی سازشی نظریات کی پرچار اور شکایات کا فارمولا لیکر کچھ خاص ڈیلیور کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں. ہر کوئی دوسرے سے ناراض ہیں مگر اسباب کی بجائے مسائل بیان کرنے میں سب بے انتہا مصروف.
ملک کے اہم اداروں کو یا تو مذاق سمجھ کر الزامات در الزامات کا رویہ اختیار کیا گیا ہے یا بعض کو جان بوجھ کر حالات کا ذمہ دار قرار دیکر سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے. عدالتی نظام انصاف کی فراہمی کے اپنے بنیادی فرایض کی بجائے سیاسی معاملات کو سلجھانے کے متنازعہ ایشوز میں پھنسا ہوا ہے تو دوسری طرف سیاسی اور حکومتی قیادت پارلیمنٹ کی بجائے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا کر مزید بد اعتمادی کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں.
اس تمام بے چینی اور عدم برداشت میں سب سے خطرناک کردار فیک نیوز کے اس مخلوق کا سامنے آ یا ہے جو کسی ضابطہ اخلاق یا احساس زمہ داری کی پابند نہیں ہے اور اس مخلوق کو لگام ڈالنے کے امکانات اور اقدامات بھی نظر نہیں ارہے. یہ لوگ پروپیگنڈہ مشینوں میں تبدیل ہوکر کسی کو کسی بھی وقت نشانہ بناسکتے ہیں اور آج کل ریاست ان کے نشانے پر ہے.
پاکستان نے سب کو بہت کچھ دیا ہے تاہم جس تیزی کے ساتھ یہ لوگ اپنے رہنماؤں کے سیاسی مقاصد کے لئے ریاست اور سماج کے خلاف نکل آئے ہیں یہ بہت خطرناک ہے اس لیے ریاست کو چاہیے کہ مزید رعایت اور نرمی کی بجائے ان عناصر کو لگام دیں ورنہ مزید تلخیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوں گی.