پشتونوں کی لوک کہانیاں تجزیاتی مطالعہ

Qissa Khwani the street of story tales peshawar
رضوان لونگین
اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو عقل و شعور کی بنیاد پر تمام مخلوقات میں بلند مقام عطاء فرمایا ۔ یہی نہیں بلکہ اسے جستجو ، تحقیق اور تخلیق کے فن سے بھی آشنا کیا۔قدرت کی عطا کردہ ان ہی خوبیوں کی بدولت انسان اپنے جذبات ، احساسات ، تجربات اور خیالات کا ا ظہار مختلف انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہی اظہار اگر ایسے تخلیقی اور فنکارانہ انداز میں ہو جو سننے اور پڑھنے والے کے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی احساسات کو بھی متاثر کرے تو ادب کہلاتا ہے۔بعض ناقدینِ ادب صرف تحریری شکل میں موجود تخلیقات کو ادب مانتے رہے ہیں ۔جس سے ادب نہ صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ اس سے زندگی کی معاشرتی ، تہذیبی اور سماجی تصویر بھی دھندلی دکھائی دینے لگتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ صدیوں سے سینہ بہ سینہ محفوظ رہنے والی ہزاروں کہانیوں اور گیتوں کو بھی ادب میں شامل کیا جائے ۔یہی ادب ،لوک ادب یا عوامی ادب کہلاتا ہے۔لوک ادب اتنا ہی پرانا ہے جتنی زبان ، یعنی لوک ادب کی تاریخ اور بعض اوقات اس کی اہمیت تحریری ادب سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ لوک کہانی ایک قدیم ادبی تخلیق تصور کی جاتی ہے ۔ دنیا بھر اور خصوصاََ پاکستان کی بڑی زبانوں میں بھی لوک کہانیاں ملتی ہیں ۔ یہ کہانیاں اپنے عہد کے تہذیبی ، ثقافتی ، اور سماجی عوامل کی عکاس رہی ہیں ۔کہانی تخلیق کرنے والا اپنے ذاتی جذبات و نفسیات کے ساتھ ساتھ اپنے پورے عہد اور سماج کی نفسیات بیان کر رہا ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ممکنات بھی دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ میں کہانی سناتا ہوں ، تُو اچھا اچھا کہتا جا’’یہ بات ہر قصہ گو حجرے میں بیٹھے ہوئے اپنے سامعین میں کسی کو ایک مخاطب کر کے کہتا ہے اور پھر کہانی سنانا شروع کر دیتا ہے ۔ سننے والوں میں یہ مخصوص شخص کہانی کے ہر ہر جملے پر ‘‘ اچھا اچھا ’’ کہتا جاتا اور کہانی آگے بڑھتی چلی جاتی ۔پشتونوں کی ہر بستی میں شام کے بعد حجرے میں مل بیٹھنا اور ایک قصہ گو کو درمیان میں بٹھا کر کہانی سننا ایک معمول تھاپشتونوں کی تہذیبی زندگی میں کہانی بنناور کہانی سننا ،ہمیشہ سے شامل رہا ہے ۔پشتون سرزمین پر مختلف اقوام تجارتی مقصد سے قافلوں کی صورت میں آتی رہی ہیں ۔جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مابین تجارتی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے تجارتی قافلے پشاور میں پڑاؤ ڈالتے ، جہاں مختلف اقوام کے تاجر کئی کئی روز قیام کرتے ۔پشاور کے قصہ خوانی بازار میں قائم ان قیام گاہوں میں مقامی قصہ گو رات کو ان مسافروں کو قصے سنایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ پشاور ہمیشہ سے قصہ گوئی کے لیے مشہور رہا ہے اورقصہ خوانی بازارکانام بھی اسی مناسبت سے پڑگیاہے کہانی کا تعلق انسان کی صدیوں پرانی تہذیب سے وابستہ ہے ۔ اگرچہ اس کی مختلف صورتیں وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی رہیں ، جیسے داستان ، ناول ، افسانہ ، ڈرامہ یا پھر ناولٹ یا افسانچہ ، مگر ان تمام صورتوں میں بھی مشترکہ خصوصیت اور مقصد کہانی ہی بیان کرنا ہے ۔کہانی کی یہ صورتیں تحریری شکل میں انسانی زندگی اور معاشرے کے مختلف پہلو ؤ ں کی عکاسی کرتی ہیں جب کہ لوک کہانی انسان کی تاریخ ، تہذیب ، تمدن ، رسم ورواج ، اجتماعی دانش، آرزؤں اور اعتقادات کو سینہ بہ سینہ لے کر چلی آرہی ہے۔ان کہانیوں کے کرداروں میں محبت ، ایثار ، بہادری ، سخاوت ، درگزر ، صلہ رحمی ، عدل و انصاف جیسی خوبیوں کے ساتھ ساتھ مافوق الفطرت عناصر و واقعات کو بھی پیش کیا گیا ۔یہی نہیں بل کہ جہاں عدل وانصاف ، صلہ رحمی اور سخاوت پیش کی گئی وہاں ان کہانیوں میں انسانی فطرت میں شامل حرص وہوس ، ظلم ، دھوکہ دہی ، تکبر ، غرور ، منافقت اور خود غرضی جیسے شر کے عناصر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ پشتو لوک کہانی بھی پشتون قوم کی تہذیبی زندگی کا حصہ رہی ہیں ۔جنہیں بعد میں بہت سے محققین کے ساتھ ساتھ مستشرقین نے بھی مختلف زبانوں میں جمع کرکے کتابی صورت میں پیش کیا محققین کے نزدیک سینہ بہ سینہ ، نسل در نسل چلی آنے والی پشتو لوک کہانیوں کو تحریر ی صورت میں لکھنے کا آغاز تقریباََ تیرھویں صدی ہجری کے آغاز میں ہوا۔ڈاکٹر حنیف خلیل اپنی کتاب ‘‘ پشتو ادب کی تاریخ ’’ میں لکھتے ہیں ‘‘ تیرھویں صدی ہجری کے آغاز میں عوامی ادب یا پشتو فوک لور کے بارے میں تحقیق کا آغاز ہوا اور تخلیقی میدان میں بھی عوامی ادب کے بہترین نمونے تخلیق ہوئے ۔ اس دور میں ان گنت رومانوی داستانیں عوامی صنف مثنوی کی ہیت میں ضبط ِ تحریر میں آجاتی ہیں اور عوامی ادب کی دیگر اصناف میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔ڈاکٹر حنیف خلیل نے اس کتاب میں ۹۲ لوک کہانیوں کی فہرست پیش کی ہے ، جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:۱۔ آدم خان درخانئی۔ صدر خان خٹک۲۔ قصہ ابراہیم۔ ملا احمد جان ۳۔ مومن خان شیرینئی۔ جمشید۴۔ اختر منیر شہزادہ۔ ملا نعمت اللہ۵۔ آزاد بخت بادشاہ۔ فرید خان۶۔ بہادرہ پیغلہ۔ عبدالوہاب دستی۷۔ جمجمہ ۔ احمدخلیل۸۔ قصہ دا ایمان نخبسہ۔ علی حیدر ۹۔ شیر عالم میمونئی۔ جمال،۱۰۔ طالب جان ۔ ولی محمد۔پاکستان کے علاوہ افغانستان میں بھی اس دوران کئی کتب مرتب ہوئیں ، جن میں خصوصاََ ضرب الامثال اور ٹپوں کے بارے میں تحقیقی کتب شامل ہیں ۔ یہاں ‘‘ پشتو لوک کہانیوں ’’ کی ان چند کتابوں کا مختصر تذکرہ پیش کیا جارہا ہے جن میں پشتو لوک کہانیوں کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ ۱۔ ڈاکٹر محمد اعظم اعظم کی پشتو لوک کہانیوں کی کتاب ‘‘ پختنی رومانونہ’’ ہے۔ یہ کتاب ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی سے ۱۹۸۰؁ء میں شائع ہوئی ۔ ۱۴ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں تین کہانیاں‘‘ فتح خان رابیا ، آدم خان درخانئی اور محبوبہ جلات خان’’ شامل ہیں۲۔ پروفیسر محمد نواز طائر کی کتاب ‘‘ اولسی قیصی’’ ۱۹۸۱؁ء میں پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ‘‘ دعمل باچائی، بیدار قسمت ، گٹہ تاوان، دا ظالم انجام، دا پلار نصیحت ’’ سمیت کل ۲۰ کہانیاں ہیں۔۶۲ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں بعض کہانیاں مختصر حکایات کی صورت میں لکھی گئی ہیں۔آخر میں فر ہنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔۳۔ ۱۹۸۱؁ء میں پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی سے ہی شائع ہونے والی قلندر مومند ؔ کی کتاب‘‘قیصے’’ میں ۴۵ کہانیاں شامل ہیں ۔یہ کتاب کل ۶۷ صفحات پر مشتمل ہے۔۴۔ ۱۹۸۶؁ء میں پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی سے شائع ہونے والی ‘‘ عوامی قیصی’’ ، حاجی پُردل خان خٹک نے لکھی۔ اس کتاب میں۴ کہانیاں شامل ہیں۵۔ ۳ کہانیوں پر مشتمل‘‘ طاہر بخاری کی کتاب ‘‘ دا خاپیرو قیصی’’ ۱۹۸۱؁ء میں پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی سے شائع کی گئی۶۔ ۱۹۷۶؁ء سید عابد شاہ عابد کی کتاب ‘‘ اولسی نکلونہ’’ شائع ہوئی جس میں ۹ کہانیاں شامل کی گئیں۔پشتو لوک کہانیوں کو اردو زبان میں بھی مرتب کر کے محفوظ کیاگیا ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:۱۔ ‘‘ سرحد کے رومان ’’ کے نام سے پشتو لوک کہانیوں کی کتاب ۱۹۶۵؁ء میں شائع ہوئی جسے خاطر غزنوی نے اُردو میں مرتب کیا۔اس کتاب میں رومانی کہانیوں کو یکجا کیا گیا۔۲۔ ‘‘ پشتو لوک کہانیاں ’’ یہ کتاب محمد شاہد آف رستم نے مرتب کی جسے ۲۰۰۸؁ء میں پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی نے شائع کیا۔اس میں ۲۸ لوک کہانیاں شامل کی گئیں جن میں طاہر بخاری کی کتاب ‘‘ دا خاپیرو قیصی’’ کی تین کہانیوں کا تر جمہ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ اس کتاب میں بچوں کی کہانیاں ، انبیاکرام کے واقعات اور کچھ رومانوی لوک کہانیاں انتہائی مختصر انداز میں بیان کی گئی ہیں، ساتھ ہی لطائف کو بھی لوک کہانیوں میں شامل کیا گیا ہے۔اگرچہ انبیاکرام کے واقعات کو لوک کہانیوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا تاہم اس کتاب میں شامل لوک کہانیاں اہمیت کی حامل ہیں۳۔ پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی سے ۱۹۹۳؁ء میں عنایت الرحمان کی کتاب ‘‘ سوات کی لوک کہانیاں’’ شائع ہوئی ۔اس کتاب میں سوات کے علاقے کی ۵۵ کہانیاں شامل کی گئیں۔اس کتاب میں زیادہ تر کہانیاں حقیقی واقعات پر مبنی ہیں۔اس کتاب میں دورانِ تحقیق کہانی سنانے والے کا نام بھی درج کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۹۸۶؁ء میںt ” Folk Tales Of Sawa کے نام سے اٹلی سے شائع ہوئی۴۔ ‘‘ پٹھانوں کے رومان’’ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں ۹ کہانیاں شامل ہیں۔اس کتاب کو رضا ہمدانی اور فارغ بخاری نے مرتب کیا ۔۱۲۱ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۵۵؁ء میں نیا مکتبہ پشاور کے تعاون سے شائع ہوئی۔۵۔ ۲۰۰۶؁ء میں بشیر احمد سوز کی کتاب ‘‘ ہزارہ کی لوک کہانیاں ’’ شائع ہوئی جس میں ۹ کہانیاں شامل ہیں۔
Qissa Khwani Bazar, Peshawar, 1922 street of story tales
۶۔ ڈاکٹر اسماعیل گوہر کی کتاب ‘‘ پشتو کی لوک کہانیاں ’’ اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہے ۔اس کتاب میں ۶۳ لوک کہانیاں شامل کی گئیں ہیں ۔ اس کتاب آغاز میں لوک کہانیوں کے حوالے سے اہم تحقیقی معلومات بھی دی گئیں ہیں۔یہ کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن سے ۲۰۲۲؁ء میں شائع ہوئی۔ پشتو لوک کہانیوں کو جہاں اُردو زبان میں مرتب کیا گیا وہاں مستشرقین نے بھی ان کہانیوں کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس حوالے سے چند ایک ناموں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔
۱۔ چارلس سوئینرتن ” Charles Sweynnerton”کی کتاب Indian Nights Entertainment Or Folk Tales of Upper Indus” ” ۱۸۹۲؁ء میں شائع ہوئی جس میں پشتو اور ہندکو لوک کہانیوں کو شامل کیا گیا ۔تاہم پشتو اور ہندکو لوک کہانیوں میں تہذیبی خدو خال کا فرق واضح طور پردکھایا گیا ہے ۔ ۲۔ ” Pashtun Tales, From the Pakistan Afghan Frontier”پشتو لوک کہانیوں کی یہ کتاب عائشہ احمد اور راجر بوسے(Rager Boase) کی تحقیق ہے ۔یہ کتاب پہلی بار ۲۰۱۰؁ء میں اور دوسری بار ۲۰۱۵؁ء میں وائیوا بکس نئی دہلی سے شائع ہوئی۔یہ کتاب پاکستان اور افغانستان کے مشرکہ ادبی ورثے کی عکاسی کرتی ہے۔اس کتاب میں کل ۳۵کہانیاں شامل کی گئیں ہیں۔۳۔ شیرانی قبیلے سے یکجا کی گئی لوک کہانیوں کو سر لوکاس کنگ (Sir Lucas King) نے ـ” Sherani Folk Tales “کے نام سے یکجا کیا ۔ان کہانیوں کو خیبر آرگنائزیشن نے یو ٹیوب پر ڈال رکھا ہے۴۔ ‘‘تھامس پیٹرک بیوز’’ نے ۱۸۷۲؁ء میں اپنی کتاب ‘‘ کلیدی افغان ’’ میں ‘‘ شہزادہ بہرام اور گل اندام’’ کی کہانی کو شامل کیا۔۵۔ “Bunnu or Our Afghan Fronteir” کی کتاب پہلی بار ۸۱۷۶؁ء میں شائع ہوئی ۔ پاکستان میں ۹۱۷۸؁ء میں اس کتاب کو شائع کیا گیا ۔اس کتاب کے مصنف تھارن برن (S.S. Thor Burn) نے “Choice of wife” کے نام سے کہانی شامل کی۔اگر چہ بہت سی لوک کہانیاں ایسی ہیں جو مختلف کتابوں میں معمولی ردوبدل کے ساتھ بار بار شامل کی گئیں ہیں ، تاہم پشتو لوک کہانیوں کے حوالے سے یہاں ہمارا مقصد ان چند کتابوں کامختصر تعارف پیش کرنا ہے جس میں پشتون تہذیب کو لوک کہانیوں کی صورت میں اکھٹا کرکے محفوظ کیا ،نہ کہ ان کتابوں پر تبصرہ کرنا اور نہ ہی ان کتابوں کا تنقیدی جائزہ مقصود ہے۔ حوالہ جات:
۱۔ ڈاکٹر اسماعیل گوہر ، ‘‘ پشتو لوک کہانیاں’’، نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد ۲۰۲۲؁ء۔۲۔اکٹر حنیف خلیل، ‘‘ پشتو ادب کی تاریخ (1947 تا حال)’’، اکادمی ادبیات پاکستان ،۲۰۲۲؁ء۳۔ محمد شاہد آف رستم ، ‘‘ پشتو لوک کہانیاں’’ ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ۲۰۰۸؁ء۔۴۔قلندر مومندؔ، ‘‘ قیصے’’ ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ۱۹۸۱؁ء۵۔پروفیسر محمد نواز طائر ، اولسی قیصی’’ ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی، ۱۹۸۱؁ء۔۶۔ڈاکٹر محمد اعظم اعظم ، پختنی رومانونہ’’ ، ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی، ۹۱۸۰؁ء۔۷۔حاجی پر دل خان خٹک، ‘‘ عوامی قیصی’’ ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی، ۹۱۸۶؁ء۸۔ عنایت الرحمان ، ‘‘ سوات کی لوک کہانیاں’’، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی، ۱۹۹۳؁ء۹۔ “Bnuu or Our Afghan Frontier”, SS Thorburn, Frogotten Books, 1876

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket