Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, September 8, 2024

پختونخوا کو درپیش گورننس کے چیلنجز

یہ کہنا شاید مناسب طرز عمل نہیں ہو گا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے بہتر پرفارم نہیں کر پا رہی یا یہ پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں ایک ناکام حکومت ہے تاہم اس کی مجموعی کارکردگی خصوصاً گورننس کے ایشو کو مثالی بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اس کی بنیادی وجہ صوبائی کابینہ اور پارلیمانی پارٹی میں موجود وہ مبینہ اختلافات یا بداعتمادی ہے جو کہ حکومت کی تشکیل کے دوران وزیراعلیٰ کے انتخاب کے معاملے پر سامنے آئی تھی اور بعض سینئر لیڈر وزیر اعلیٰ محمود خان کے مقابلے میں اس عہدے کے لیے خود کو زیادہ حقدار اور مناسب سمجھ رہے تھے ۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پارٹی کی سینئر لیڈر شپ کی لابنگ اور گروپ بندی توڑنے کے لئے محمود خان کو نامزد کر دیا تھا اور اب تک وزیراعظم ان کی پشت پر کھڑے ہیں تاہم ناراض لیڈرز کی گروہ بندی اور تلخی فطری طور پر اب بھی موجود ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں صوبائی کابینہ اور پارٹی میں وہ ہم آہنگی، رابطہ کاری اور مشاورت نظر نہیں آرہی جو کہ صوبے اور صوبائی حکومت کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ یہ بنیادی مسئلہ حکومت کی گڈ گورننس پر منفی اثر ڈالتا رہا ہے حالانکہ اس حکومت کو اسمبلی میں اتنی واضح اکثریت اور مینڈیٹ حاصل ہے کہ اگر یہ چاہتی تو نہ صرف ریکارڈ قانون سازی کر سکتی تھی بلکہ صوبے کی تقدیر بھی بدل سکتی تھی کیونکہ اپوزیشن کا رویہ بہت مثبت رہا ہے ۔

وزیر اعلی ٰمحمود خان فطری طور پر شریف النفس اور مثبت انسان ہیں اور اب تک ان کی کوشش رہی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے مگر یہ تلخ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ان کو عمران خان کی سرپرستی کے باوجود اب بھی کئی اندرونی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے اور ان کو کھل کر کھیلنے نہیں دیا جارہا۔ 2018 کے الیکشن کے دوران وزارت اعلی ٰکے سب سے مضبوط امیدوار عاطف خان نہ صرف یہ کہ اب تک زیر عتاب ہے بلکہ شاہرام ترکئی کے برعکس وہ ابھی تک صوبائی کابینہ سے بھی باہر ہیں۔ ان کے ساتھی اس طرز عمل کو دبے الفاظ میں زیادتی قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیر اعلی ٰہاوس کو ان سینئر لیڈروں اور بیوروکریٹس کی مبینہ مداخلت اور دباؤ کا بھی سامنا ہے جو کہ مرکزی سطح پر وزیراعظم عمران خان کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور ان کو پی ٹی آئی میں کافی اثر اور اہمیت حاصل ہے۔

صوبائی حکومت کو مسلسل یہ شکایت رہی ہے کہ بعض سینئر بیوروکریٹس بوجوہ اس کے ساتھ درکار تعاون نہیں کر رہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال کے عرصے میں تین چیف سیکرٹریز سمیت تقریبا ًدو درجن سیکریٹری تبدیل کیے گئے ۔یہ دو طرفہ طرز عمل جہاں ایک طرف بیوروکریسی میں عدم تحفظ کا احساس اور تاثر بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے وہاں محکموں کی کارکردگی بھی اس سے متاثر ہوتی رہی ہے اور بیروکریسی وہ کچھ ڈیلیور نہیں کر رہی جس کی صوبے کو انتظامی طور پر ضرورت ہے۔ گورننس کی مد میں ایک اور مسئلہ صوبائی حکومت کو یہ درپیش ہے کہ اکثر وزراء اپنی وزارتوں میں درکار دلچسپی لینے کی بجائے دوسروں کے معاملات اور ایشوز میں مداخلت کرتے نظر آتے ہیں اور اکثر کی کوشش یہ رہتی ہے کہ کارکردگی دکھانے کی بجائے عمران خان اور محمود خان کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی اور سرپرستی کیسے حاصل کی جائے۔ اس ضمن میں کوآرڈینیشن کا فقدان پایا جاتا ہے۔

اگرچہ وزیراعظم عمران خان دوسرے صوبوں کے مقابلے میں خیبرپختونخوا کو زیادہ وقت اور توجہ دیتے آرہے ہیں مگر اس کے باوجود بعض متعلقہ وفاقی وزراء صوبائی حکومت کے ساتھ وہ تعاون نہیں کر رہے جس کی محمود خان کو ضرورت ہوتی ہے۔ وفاقی کابینہ میں مراد سعید ہی غالباً واحد وزیر ہیں جو کہ پہلے دن سے اب تک محمود خان اور ان کی حکومت کا کھل کر ساتھ دیتے آئے ہیں اور وہ عمران خان اور محمود خان کے درمیان پل کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ صوبے کو اس کے مخصوص پس منظر کے بعد سنجیدہ قسم کی مشکلات اور معاشی مسائل کا سامنا ہے اس ضمن میں ہم این ایف سی ایوارڈ کی منظوری میں غیر معمولی تاخیر کی مثال دے سکتے ہیں جس کی تا خیر سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اقتصادی طور پر بہت نقصان پہنچ رہا ہے اور ترقیاتی منصوبے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اگرچہ صوبائی حقوق پر صوبائی حکومت، اپوزیشن اور اسمبلی ایک صفحے پر ہیں مگر بعض مالیاتی امور اور بڑے منصوبے صوبائی حکومت کے مشکلات میں اضافے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال کا ازالہ اس حوالے سے بہت ضروری ہے کہ صوبہ پختونخوا ہی پی ٹی آئی اور عمران خان کا ابتدائی اور بنیادی مرکز اور میدان ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار کسوئی پارٹی دوسری دفعہ کسی صوبے میں بھاری مینڈیٹ سے برسراقتدار آئی ہے۔

فاٹا کو صوبے میں ضم کرنا اور وہاں پر امن الیکشن کا انعقاد موجودہ حکومت کا بڑا اقدام تھا مگر بعض عناصر خصوصا ً بیوروکریسی کی عدم دلچسپی کے باعث حکومت اس اقدام کو کیش نہ کرا سکی جبکہ صوبائی کابینہ ابھی تک خاتون وزیر سے محروم ہے جس کی وجہ مختلف گروپوں کے اختلافات پائے جاتے ہیں اگر گورننس کے مسائل حل کیے جائیں تو اس کے بہت بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket