Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

پشاور بم دھماکہ: اسباب اور عوامل

منگل کی صبح پشاور کے نواحی علاقے دیر کالونی میں موجود ایک مدرسے کو اس وقت بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہاں درس قرآن کا سلسلہ جاری تھا اور ہال میں درجنوں افراد موجود تھے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایک شخص نے دوران درس ہال میں داخل ہوکر بیگ رکھا جس کے بعد زوردار دھماکہ ہوا اور یہ واقعہ منگل کی صبح ساڑھے آٹھ بجے رونما ہوا۔ ابتدائی طور پر اس بم دھماکہ کے نتیجے میں 10 افراد شہید جبکہ 100 زخمی ہوگئے۔

شہداء میں بچے بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں 15 سے لے کر بیس کی حالت نازک ہے اس لئے خطرہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ زخمیوں کو پشاور کے چار مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے تاہم درجنوں ایسے ہیں جن کو خصوصی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا ہے۔ شہر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی جبکہ حساس اور گنجان آباد علاقوں کی ناکہ بندی بھی کی گئی کیونکہ چند روز قبل نیکٹا نے خبردار کیا تھا کہ پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گرد کارروائیاں کی جا سکتی ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق مذکورہ مدرسے میں ایک ہزار سے زائد طلبا ءزیر تعلیم ہیں اور اس کا شمار پشاور کے قدیم ترین مدارس میں ہوتا ہے یہاں نہ صرف طلبہ پڑھتے ہیں بلکہ ہر چند مہینے بعد یہاں پر درس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جس میں طلبہ کے علاوہ عام لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ منگل کے روز جس وقت دھماکہ کرایا گیااس دوران بھی ایک نامور مدرس شیخ رحیم اللہ حقانی درس دے رہے تھے اور دوران درس بم دھماکا ہوا جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی اور پورے ملک میں اس افسوسناک واقعے کی بازگشت سنائی دی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس مدرسے میں نہ صرف بہت سے افغانی اساتذہ پڑھاتے رہے بلکہ یہاں کے طلبا ءکی اکثریت بھی افغان بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل رہی ہے اور یہ مدرسہ وفاق المدارس کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق المدارس پاکستان نے بھی نہ صرف یہ کہ اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ انکوائری اور مزید واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت اور مدارس کے ساتھ رابطہ کاری کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کی ہے۔

معتبر ذرائع کے مطابق اس مدرسے سمیت بعض دیگر مدارس اور مساجد کو بھی بعض نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور واقعے سے چند روز قبل بھی مقامی پولیس نے اس مدرسے کی انتظامیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی تدریسی سرگرمیاں محدود کرنے کے علاوہ سیکورٹی کے اقدامات پر بھی توجہ دیں تاہم بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا اور اس کے نتیجے میں منگل کے روز کا افسوسناک سانحہ رونما ہوا۔

سکیورٹی حکام اور ماہرین اس حملے کو ایک بڑا خطرہ اور اشارہ سمجھ کر خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ افغانستان کی بگڑتی صورتحال ملک میں جاری سیاسی کشیدگی اور خطے کے بعض ممالک کے منفی کردار کے تناظر میں ریاستی اداروں کو مزید الرٹ رہنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ بعض تجزیہ کار ایسے واقعات کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ازسر نو تشکیل ،نئی تنظیم سازی اور نئی صف بندی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے مزید حملے اور دھماکے بھی کرائے جاسکتے ہیں کیونکہ ٹی ٹی پی حال ہی میں بعض قبائلی علاقوں میں بھی حملے کرا کر ذمہ داری قبول کر چکی ہے اور خدشہ ہے کہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے انہوں نے قبائلی علاقوں کے بعد پشاور جیسے مرکزی شہر کے ایک معروف مدرسہ کو ٹارگٹ کیا۔ اس واقعے کو آرمی پبلک اسکول جیسے حملے یا کوشش کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ سکیورٹی اداروں نے بھی اس کا انتہائی سخت اور سنجیدہ نوٹس لیا اور وزیر اعلیٰ کابینہ سمیت دوسرے متعلقہ اعلیٰ ترین اداروں اور حکام نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے رابطہ اور اجلاس کرکے سکیورٹی کے معاملات اور اقدامات پر نہ صرف نظرثانی کی بلکہ پس پردہ محرکات اور مستقبل کے چیلنجز کا جائزہ بھی لیا۔

اس دھماکے یا حملے کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خطے کے بدلتے حالات اور بعض پاکستان مخالف قوتوں کے عزائم سب کے سامنے ہیں اور پشاور کے مخصوص حالات اور ماضی کے سانحات بھی سب ہی کو معلوم ہیں۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ درکار عملی اقدامات کو عوام کے تعاون سے یقینی بنایا جائے اور سیکورٹی سخت کی جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket