سیاسی اور انتظامی کشیدگی میں اضافہ

سیاسی اور انتظامی کشیدگی میں اضافہ
عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں جاری کشیدگی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اس پر ستم یہ کہ اظہار رائے سے متعلق بعض امور اور اقدامات کو ایک بار پھر زیر بحث لاکر تنقید کا نشانہ تو بنایا جارہا ہے تاہم کوئی بھی فریق اس بات پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ پاکستان میں اظہار رائے کے نام پر بعض حلقوں کی جانب سے جو انتشار گردی جاری ہے اس نے پاکستان کی سیاست اور معاشرت دونوں کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے اعلیٰ عدلیہ کو پھر سے شدید نوعیت کی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور لگ یہ رہا ہے جیسے ایگزیکٹیو اور جوڈیشری ایک دوسرے کی مدقابل آکر ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کی کوشش میں ہیں ۔ بعض جج صاحبان نے اپنی ریمارکس میں غیر ضروری طور پر بعض ایسے کلمات ادا کیے جس کے نتیجے میں حکومت کو بھی کھل کر سامنے آنا پڑا اور میڈیا نے بھی اس تلخی کو مزید بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اداروں کے درمیان تصادم کو جان بوجھ کر بڑھانے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے تاہم اس بات کا بہت کم لوگوں کو احساس ہے کہ اس تمام کشیدہ صورتحال کے نتیجے میں پورے سسٹم کو لپیٹا جاسکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری کشیدگی بڑھانے والے فریقین پر ہی عائد ہوگی۔
تشدد ، پروپیگنڈے اور غیر ضروری بیانات، الزامات نے پورے معاشرے کو زنگ آلود کرکے رکھ دیا ہے اور تشویش اس بات کی ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے علاوہ اہم ریاستی اداروں کی باہمی کشمکش نے پرتشدد واقعات میں اضافے کا راستہ ہموار کردیا ہے اور کسی کے ساتھ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اس ضمن میں گزشتہ شام پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن کے ساتھ پیش آنے والا وہ افسوسناک واقعہ ہے جس کے دوران ایک مخصوص ” گروپ” نے ان پر حملہ کرتے ہوئے زخمی کیا اور اس پارٹی کے بانی سمیت اکثریت نے حقائق جانے اور تفتیش کرنے سے قبل منٹوں کے اندر حسب معمول بعض اہم اداروں پر اس حملے کی ذمہ داری ڈال کر مخالفانہ مہم شروع کردی۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بعض وہ حلقے بھی میدان میں کود پڑے جو کہ مذکورہ پارٹی کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ اسی دوران ہتک عزت بل کی منظوری سے ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا تو اسی روز ایک سینیٹر نے ایوان میں اعلیٰ عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے بعض الزامات کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ عدلیہ کے کردار کو کھلے عام چیلنج بھی کردیا۔ سنجیدہ حلقوں نے بھی عدالتی ایکٹیوازم پر اظہار تشویش کرتے ہوئے بہت سخت نوعیت کے سوالات اٹھائے اور اس بات پر کھل کر تنقید کی گئی کہ عدلیہ نہ صرف ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ رعایت برتنے کی پالیسی پر گامزن ہے بلکہ بعض حساس قسم کے معاملات کو بھی چیلنجز اور نتائج کا ادراک کیے بغیر ڈیل کرنے کی کوشش میں مزید کشیدگی پیدا کرنے کی روش پر چل رہی ہے۔ اسباب و عوامل جو بھی ہو افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم پروپیگنڈا کے ایک بدترین دور سے گزر رہے ہیں اور ہر کسی کو اپنی آنا اور ضد کی پڑی ہوئی ہے۔ اگر اس روش کو ترک کرکے مثبت راستہ اختیار نہیں کیا گیا تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں جو انارکی پھیلے گی اس سے کوئی ادارہ، شخص یا طبقہ محفوظ نہیں رہے گا اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ انا پرستی اور پرانا حساب چکانے کی بجائے نتائج کا ادراک کرتے ہوئے ادارہ جاتی ایکٹیوازم کا راستہ ترک کرکے کشیدگی کم کرنے پر توجہ دی جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket