عقیل یوسفزئی
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق داعش خراسان نے سال 2019 کے بعد اب تک خیبرپختونخوا پختونخوا کے مختلف علاقوں میں 117 حملے کئے ہیں ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 957 افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور افسران بھی شامل ہیں ۔ فراہم کردہ معلومات کے مطابق فورسز نے اس عرصے کے دوران سینکڑوں انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے جس کے نتیجے میں داعش کے 150 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا جن میں متعدد اہم کمانڈر بھی شامل ہیں ۔ جبکہ داعش کے 57 آفراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔
دوسری جانب ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 26 مارچ کو بشام کے قریب چینی اہلکاروں کے قافلے کو نشانہ بنانے کے واقعات کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں اور اس واقعے میں ملوث 4 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جنہوں نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ اس حملے کی پلاننگ افغانستان میں کی گئی تھی اور یہ کہ ان کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس حملے کی پوری پلاننگ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت نے کی اور چاروں گرفتار افراد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے متعدد دیگر انکشافات بھی کیے ہیں۔
یاد رہے کہ ٹی ٹی پی نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا تاہم جس پیٹرن کے ساتھ یہ حملہ کرایا گیا تھا اس کے تناظر میں سیکورٹی اداروں کے علاوہ متعدد ماہرین کی بھی رائے یہ تھی کہ یہ حملہ اس گروپ ہی نے کرایا ہے ۔ لاتعلقی کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ چین اور افغانستان کی عبوری حکومت کی ناراضگی سے بچا جاسکے تاہم تحقیقات اور گرفتار افراد کے اعتراف کے بعد صورتحال واضح ہوئی ہے اور یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نہ صرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے بلکہ چین سمیت ان ممالک کو بھی نشانہ بنارہی ہے جن کے ساتھ پاکستان کے بہتر تعلقات قائم ہیں اور متعدد ممالک پاکستان میں سی پیک سمیت دیگر اہم پراجیکٹس میں بہت بڑی سرمایہ کاری بھی کررہے ہیں۔
یہ بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ گوادر سمیت بلوچستان کے اہم علاقوں کو بھی مسلسل حملوں کا نشانہ بنانے کے پیچھے کونسی قوتیں کارفرما ہیں اور ٹی ٹی پی ، داعش اور بی ایل اے جیسی قوتوں کو کہاں سے سپورٹ ملتی آرہی ہے ۔ انڈین میڈیا مسلسل پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان کے دو صوبوں یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جو سیکورٹی صورتحال بنی ہوئی ہے بھارتی حکومت اس تناظر میں مزاحمتی گروپوں کی نہ صرف سرپرستی کریں بلکہ فنڈنگ پر بھی توجہ دیں تاکہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کو کمزور کیا جائے اور اس کی متوقع ترقی کا راستہ روک دیا جائے ۔ یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ بھارتی میڈیا اور ماہرین پاکستان تحریک انصاف کا بھی مسلسل دفاع کرنے میں مصروف عمل ہیں اور اس پارٹی کے بانی کو بھارت کا ہیرو قرار دیا جارہا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اس پارٹی کے مزاحمتی طرزِ عمل اور پروپیگنڈا مشینری کے باعث بھارتی مفادات کو فایدہ پہنچ رہا ہے مگر یہ پارٹی اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نظر نہیں آرہی۔
اسی صورت حال کے تناظر میں اب ماہرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ شاید پاکستانی ریاست 9 مئی کے ذمہ داران اور ان کے ملکی ، غیر ملکی سپورٹرز کے خلاف مزید سخت پالیسیاں اختیار کرے ۔ نامور صحافی علی خان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نہ صرف دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے لاتعلق دکھائی دے رہی ہے بلکہ یہ گاہے بگاہے مذاکرات کی خواہش کا اظہار بھی کرتی ہے ۔ اسی تناظر میں صوبے کے متعلقہ اداروں کو بھی ابہام کی صورت حال کا سامنا ہے ۔ ان کے مطابق جب حال ہی میں ان کے ساتھ کیے گئے ایک انٹرویو میں مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے پاکستان کی فوج کو اپنی فوج قرار دیتے ہوئے چند مثبت باتیں کیں تو تحریک انصاف کے بعض حلقوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔ یہی رویہ ان کا وفاقی حکومت کے ساتھ بھی چلا آرہا ہے جس سے صوبے کے مفادات اور معاملات بری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔
اس تمام صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ تمام پارٹیاں , حکومتیں اور ادارے کم از کم دہشت گردی اور شر پسندی کے بنیادی مسائل کے حل پر کسی متفقہ فارمولے پر یکسو ہوکر قومی اتفاق رائے کا راستہ اختیار کریں کیونکہ پاکستان کی مضبوط سیکورٹی ملک کے معاشی مستقبل کی بہتری کی بنیاد ہے اور جاری کشیدگی اور دہشت گردی کے ہوتے ہوئے ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔