وصال محمدخان
انہوں نے کہا
اسلام آبادپرقبضہ کرلیں گے, علی امین گنڈاپور
پی ٹی آئی کے تقریباًتمام راہنماخبروں میں اِن رہنے کیلئے اکثروبیشترکچھ نہ کچھ بولتے رہتے ہیں ان خواتین وحضرات کویقین ہے کہ بولتے رہناہی زندگی ہے۔ اسلئے جب بھی موقع ملے کچھ نہ کچھ بولواورجب اس کاجواب طلب کیاجائے تومزیداسی طرح بولتے رہو۔ویسے توبولنا اورزیادہ بولنے بلکہ بولتے رہنے کوعموماًپسندنہیں کیاجاتا مقولہ بھی ہے کہ خاموشی بہترین عبادت ہے زیادہ بولنے کواسی لئے پسندیدہ قرارنہیں دیاجاتاکہ اس میں قباحتیں بہت ہیں کچھ نہ کچھ الٹاسیدھابول دیاجاتاہے جوبولنے کے قابل نہیں ہوتااگرچہ پی ٹی آئی کوبولناکچھ یوں راس آیاہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں انہیں بولنے اوربولتے رہنے کے سبب اچھی خاصی کامیابی ہاتھ لگی۔ ورنہ اس پارٹی کی دس سالہ صوبائی اور پونے چارسالہ وفاقی حکومت نے ایساکوئی کارنامہ انجام نہیں دیاجس کیلئے عوام اسے جھولیاں بھربھرکرووٹ دیتی ۔اسی بولتے رہنے کی روش میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپوربھی کسی سے پیچھے نہیں وہ بھی اکثروبیشتربولتے رہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپوزیشن میں ہوں توبولتے رہنے کے سبب انہیں کامیابی ملتی ہے اورجب حکومت میں آتے ہیں توسمجھتے ہیں کہ یہی سلسلہ جاری رکھنے سے حکومت بھی چلتی رہے گی یعنی حکومت اوراپوزیشن دونوں صورتوں میں بولتے رہنالازمی قراریاگیا ہے جبکہ علی امین گنڈاپورنے توبولتے رہنے بلکہ الٹا سیدھابولتے رہنے کوعادتِ ثانیہ ہی بنالیا ہے۔ انہیں وزارت اعلیٰ بھی بولتے رہنے کے سبب ملی ہے ورنہ پی ٹی آئی میں پارٹی کیساتھ مخلص اوراہل افراد کی کمی نہیں تھی مگروہ سب اس عہدہء جلیلہ کیلئے اسلئے اہل نہیں سمجھے گئے کہ وہ بولتے رہنے کے عارضے میں مبتلانہیں ہیں یاوہ جو بولتے ہیں وہ کر کے دکھاسکتے ہیں اوراس پارٹی میں ایسے لوگ رل جاتے ہیں جوبے تکان بولتے رہنے کی صلاحیتوں سے مالامال نہ ہوں جسے بولتے رہنے کے سبب وزارت اعلیٰ تک رسائی نصیب ہواس نے لازماًبولتے ہی رہناہے اسی بولتے رہنے کے سلسلے میں وزیراعلیٰ نے رشوت مانگنے والے سرکاری اہلکارکے سرمیں اینٹ دے مارنے کی ہدایت بھی دے ڈالی ۔کبھی وہ وزیراعظم سے ملاقات کرکے فرماتے ہیں کہ ہم بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے جارہے ہیں اورمل جل کرہی ملک کوترقی کی راہ پرگامزن کیاجاسکتاہے اس قسم کی باتیں جب وہ کرتے ہیں تولوگ سمجھتے ہیں کہ شائدانہیں احساس ہواہے اوربلوغت کامظاہرہ کیاجارہاہے مگردوسرے ہی دن وزیراعظم کوفارم47کا وزیراعظم قراردیا جاتاہے اوران کیساتھ مذاکرات کی بجائے ان سے حق چھیننے کادعویٰ سامنے آجاتاہے ۔کبھی وہ مریم نوازپرتنقید کے تیربرساناشروع کردے تے ہیں توکبھی انکی لباس کوبھی تضحیک کانشانہ بنایاجاتاہے ۔حالانکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کبھی ان کانام تک نہیں لیا پھربھی وزیراعلیٰ ہفتے میں ایک دوبارضروران کانام لیکرتنقیدکاکوئی شوشہ مارکیٹ میں چھوڑدیتے ہیں انکے مشیراطلاعات بھی صبح اٹھ کرنہارمنہ وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکرد گی پرتنقیدکواپنافرض اولین سمجھتے ہیں حالانکہ ان کافرض یہ ہے کہ وہ عوام کی بہتری کیلئے اقدامات کریں۔ حکومتی کارکردگی کایہ عالم ہے کہ وہ میٹرک امتحانات کے شفاف اور غیرمتنازعہ انعقادسے قاصرہے ،بچوں کومفت تدریسی کتب کی فراہمی پردو چارارب روپے خرچ ہوتے ہیں یہ منصوبہ سنبھالنے اوراسے کامیابی سے چلانے میں ناکام ہے۔ بلکہ عوامی مفاداورتعلیم کی فراہمی کیلئے یہ منصوبہ انتہائی اہم ہے جوٹھپ ہونے کے قریب ہے مگروزیراعلیٰ اورمشیراطلاعات کوپنجاب کاغم کھائے جارہاہے ۔پی ٹی آئی کوپنجاب اسمبلی میں اپنی پارٹی متحرک کرنی چاہئے تا کہ خیبرپختونخواحکومت کی ذمہ داریوں میں کچھ کمی واقع ہو۔وزیر اعلیٰ کی جانب سے وفاق پرقبضہ کرنے کا بیان ایک غیرضروری اورلایعنی بیان ہے اسلام آبادکسی غریب مزارعے کادوچارکنال کھیت تونہیں جس پرسردارعلی امین اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے قبضہ کرلینگے کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کوسوچھ سمجھ کربولناچاہئے، اسے اپنامقام پہنچانناچاہئے ،اورایسی بات کرنی چاہئے جوقابل عمل ہو،عمران خان کی صحبت سے وزیر اعلیٰ نے یہ جواثرلیاہے یہ کسی صورت قابل ستائش نہیں ۔ویسے قبضے وغیرہ کی باتیں یاتودشمن کوزیب دیتی ہیں یادہشت گردوں کو،کسی سیاستدا ن خصوصاًوزیراعلیٰ کوقبضے کی باتیں اوروہ بھی وفاقی دارالحکومت پرقبضے کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ صوبائی حقوق لینے کے ان گنت باوقاراور احسن طریقے موجودہیں اس کیلئے قبضے کی دھمکیاں نادانی ہے ۔دوسال قبل جب وزیراعلیٰ وفاقی وزیرتھے اس وقت انہوں نے صوبے کیلئے اتناسخت سٹینڈنہیں لیااگراس وقت یہ پھرتیاں دکھائی جاتیں توشائدآج وفاقی دارالحکومت پرقبضے جیسی دھمکیوں کی ضرورت ہی نہ رہتی۔محاذ آرائی اوربیانات دربیانات سے اگرچہ پی ٹی آئی کوانتخابات میں جزوی کامیابی ملی ہے مگراب انہی بیانات کے سبب یہ کامیابی گہنارہی ہے۔ پارٹی کودھمکیوں اوربیانات سے ملنے والی کامیابی کوبرقراررکھنے کیلئے اچھی کارکردگی دکھانی ہوگی۔ اسلام آبادپرقبضے اورجیل سے قیدی نکالنے جیسے بیانات قانون شکنی کے زمرے میں آتے ہیں جوکسی سیاستدان یاایک ذمہ دارعہدے پرفائزشخص یعنی وزیراعلیٰ کوزیب نہیں دیتیں ۔وزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت کوبالغ نظری کاثبوت دیتے ہوئے ذمہ دارانہ بیانات جاری کرنے چاہئیں۔الٹے سیدھے بیانات سے بنے بنائے کام بگاڑے جاسکتے ہیں ۔بگڑے کام بنانے کیلئے سیاسی شعور،تدبر،عقل ودفہم اوردانش کی ضرورت ہوتی ہے۔