عقیل یوسفزئی
3 مئی کو پوری دُنیا میں عالمی یوم صحافت کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس روز تمام جمہوری ممالک اور معاشروں میں صحافتی تنظیموں کی جانب سے ریلیوں اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ آذادی صحافت اور اظہار رائے سے متعلق معاملات اور مسائل کا جائزہ لیا جائے اور درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جائے ۔ پاکستان کا ٹریک ریکارڈ سیاسی اور انتظامی مسائل کے باعث کچھ زیادہ بہتر نہیں رہا ہے اور اس وقت بھی بعض صحافتی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کو ریاست اور بعض گروپوں کی جانب سے اظہار رائے کے معاملات پر دباؤ کا سامنا ہے ۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافت سنگین نوعیت کے خطرات سے دوچار ہے تاہم ایسے متعلقہ حلقوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کا خیال ہے کہ پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں اظہارِ رائے اور آزادی صحافت کو چند بنیادی شرائط اور ضوابط کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے ۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اکثر ادارے اور صحافی سیلف سنسر شپ کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور جس دباؤ یا مبینہ پابندیوں کا وہ ذکر کرتے ہیں اصل صورتحال اور حقائق اس سے مختلف ہیں۔
اگر چہ کسی بھی ملک میں آزادی صحافت کو یوں کھلے عام کسی ایڈیٹوریل پالیسی کے بغیر چلانے کی اجازت نہیں دی جاتی تاہم جب سے سوشل میڈیم کو طاقت ملی ہے اظہار رائے کے اصولوں پر سوالات کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ اس میڈیم نے پوری دنیا کو پروپیگنڈا مشینری کی شکل اختیار کرلی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ متعدد اہم ممالک میں سوشل میڈیا پر یا تو پابندی ہے یا اس کو چند بنیادی شرائط سے مشروط کیا گیا ہے ۔ پاکستان میں 2015 کے بعد ایک مخصوص پارٹی نے اس میڈیم کو انتہائی منفی انداز میں پہلے اپنے مخالفین اور اس کے بعد ریاست کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا تو پورے معاشرے میں عدم استحکام اور عدم برداشت کو فروغ ملا جس نے 9 مئی جیسے واقعات کی راہیں بھی ہموار کیں تاہم اب بھی اس تمام صورتحال پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور شاید اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز رسالپور میں ایک تقریب اور ایونٹ میں اس ایشو پر بہت جامع انداز میں موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو اپنی آئینی حدود کا علم ہے اور یہ کہ وہ دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کی توقع رکھتے ہیں ۔ ان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 19 میں متعین کردہ اظہار رائے کی حدود و قیود کی برملا پامالی کرنے والے دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے ۔ آرمی چیف نے پاکستان کو درپیش چیلنجز کی نشاندھی بھی کی ۔
پس منظر اور پیش منظر پر بہت بحث کی جاسکتی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اظہار رائے کا از سر نو تعین بہت لازمی ہے اور اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا کے ادارے نہ صرف اپنی اصلاح کرتے ہوئے ملازمین کے حقوق کے تحفظ پر توجہ مرکوز کریں بلکہ حکومت اور میڈیا کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لے کر موجود بے چینی اور عدم تحفظ کا حل بھی نکال دیا جائے۔