بنوں کا علاقہ جانی خیل ماضی میں طالبانائزیشن کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے ۔ اسی تناظر میں اس سے عوام کوشدید مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاستی اقدامات کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے یہاں حالات پرامن اور پرسکون رہے تاہم 28 روز قبل یہاں کے چار نوجوان پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے جو کہ ایک دوسرے کے قریبی دوست بھی بتائے گئے۔ تقریباً آٹھ نو روز قبل چاروں کی مسخ شدہ لاشیں ایک نواحی علاقے سے برآمد کی گئیں تو بعض حلقوں نے اس افسوسناک واقعے پر نہ صرف یہ کہ سیاسی ردعمل کا اظہار کرنا شروع کیا بلکہ اس واقعے کی باقاعدہ تحقیقات سے قبل ہی اس کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر ڈال دی جبکہ لاشوں کو دفنانے کی بجائے دھرنا دے دیا گیا۔ حکومت نے وزیراعلیٰ کے کہنے پر تحقیقات کا آغاز کیا اور ساتھ میں مذاکراتی عمل بھی شروع کیا گیا ۔ اس کے علاوہ متاثرین کے تقریبا ًتمام مطالبات ماننے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا مگر دھرنا جاری رہا اور بعض عناصر نے لاشوں کو دفنانے کی بجائے روایتی مخالفت اور مزاحمتی رویہ اپنایا۔
سرکاری حکام کے مطابق چاروں دوست ابتدائی معلومات کے مطابق شکار پر گئے تھے۔ اس لئے غالب امکان ہے کہ وہ کسی انجانے سانحہ یا دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے کیونکہ واقعے کے بعد مقتولین میں سے بعض معلومات کی بنیاد پر ایک کے بھائی کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ ان مقتولین کے قریبی رشتہ داروں کی بعض طالبان گروہوں کے ساتھ وابستگی رہی ہے اور شاید اسی کےباعث کسی دوسرے گروہ نے ان کو نشانہ بنالیا۔ اصل وجہ تحقیقات کے بعد سامنے آئے گی۔
دوسری طرف متاثرین کا موقف اس سے مختلف ہے اور وہ فوری تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم ایک تیسرا فریق جو کہ سیاسی لیڈران پر مشتمل ہے اس واقعہ کو حکومتی اداروں کے کھاتے میں ڈالنے کے رویے پر گامزن ہے اور اسی عنصر نے نہ صرف بداعتمادی بلکہ کشیدگی کا راستہ بھی ہموار کیا۔ حکومتی معلومات کے مطابق جن لوگوں نے دھرنے اور کشیدگی کو طول دینے کی کوشش کی ان میں چھ افراد ایسے ہیں جو کہ علاقے کے سابقہ یا موجودہ طالبان کمانڈروں کے ساتھی یا قریبی رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔ یہی عناصر اس معاملے کو بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں تو عوام کو احتیاط کرنی ہوگی۔
یہ تازہ ترین اپ ڈیٹس بہت حوصلہ افزا ہیں کہ آج حکومتی مذاکرات کاروں اور مشران کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور جرگہ متاثرین کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ مظاہرین لاشیں دفنانے پر راضی ہوگئے ہیں اور دھرنا، احتجاج ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب تحقیقات کو عملی شکل دے کر عوام کو مستقل طریقہ کار کے مطابق اعتماد میں لیا جائے۔