Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

پختونخوا راؤنڈاَپ

وصال محمد خان
وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپوراورگورنرفیصل کریم کنڈی کے درمیان لفظی گولہ باری اب عملی اقدامات پرمنتج ہورہی ہے دونوں جانب سے سخت سست بیانات کاسلسلہ تاحال جاری ہے وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ گورنرکے پاس آئینی عہدہ ہے سیاسی گفتگوسے پرہیزکریں ورنہ حقہ پانی بندکردو نگا اگرمیری وارننگ پرعمل نہ ہواتوگورنرکی گرانٹ بنداورگاڑی واپس لے لی جائے گی،گورنراپنی اوقات میں رہیں اب ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔جس کے جواب میں گورنرنے کہاکہ میں آئینی عہدے پرموجودہوں ،مجھے گورنرہاؤس کاتحفظ کرناآتاہے،وزیر اعلیٰ نے گورنر ہاؤس پرچڑھ دوڑنے کی دھمکی دی ہے ،اگروہ چڑھ دوڑنے کی ریہرسل کے متمنی ہیں تومیں تیارہوں ،وہ اسلام آبادمیں ایکس پریس وے پربھاگے تھے ،میں ان کوانہی سڑکوں پرگھسیٹوں گا،اپنے کرتوتوں پرغورکرکے زبان کولگام دیں ،میں اسرارگنڈاپورنہیں، مجھے غنڈوں سے نمٹناآتاہے ،آئندہ جوزبان استعمال کی جائیگی اسی زبان میں جواب دیاجائیگا۔ انہوں نے دوقدم آگے بڑھکرفرمایاکہ جیسامنہ ویساتھپڑہو گا۔جس کے جواب الجواب میں وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ‘‘ اپنی اوقات میں رہو،تمہاراسیاست سے کوئی تعلق نہیں،سیاسی گفتگوسے اجتناب کرو، ورنہ گورنرہاؤس کوعوام کیلئے کھول کرعجائب گھربنادوں گااورتمہیں دوکمروں میں شفٹ کردوں گا’’جس پرگورنرکاجواب تھاکہ ‘‘وزیراعلیٰ کوگورننس پرتوجہ دینی چاہئے، انہیں عوام نے مینڈیٹ اول فول بکنے کیلئے نہیں دیا،انکے حلقے میں جج اغواہواہے جنہیں تاوان دیکر رہاکروالیاگیا اوریہ تاوان بھی قومی خزانے سے اداکیاگیاوزیراعلیٰ نے اپنی جیب سے نہیں دیا،میں مرکزاورصوبے میں لڑائی نہیں چاہتابلکہ خیبرپختونخوا اورڈی آئی خان کوپرامن بناناچاہتاہوں میں صوبے کامقدمہ ہرفورم پرلڑوں گا’’۔دونوں اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات اورجوا بی بیانات کے بعد حکومت نے اسلام آبادمیں پختونخواہاؤس میں گورنرانیکسی کواراکین اسمبلی اوروزراکیلئے مختص کردیاجسے گورنرنے غیرآئینی اقدام قراردیا ہے ۔مشیراطلاعات بیرسٹرسیف نے بھی معاملے میں کودتے ہوئے کہاہے کہ یہ فیصلہ کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں کیاگیاتھا۔ گورنرانیکسی فی الحال وزرااوراراکین اسمبلی استعمال کرینگے گورنرکی رہائش کیلئے متبادل انتظام کیاجارہاہے انہوں نے طنزیہ اندازمیں کہاکہ تب تک گورنر سندھ ہاؤ س میں قیام کرسکتے ہیں انکے پاس اسلام آبادمیں رہائشگاہوں کی کمی نہیں ۔انہی صفحات پرگزشتہ ہفتے بھی عرض کیاگیا تھاکہ دونوں اعلیٰ عہدیداروں کوحلقے کی سیاست سے نکل کرصوبے کے مفادکیلئے نہ صرف سوچنابلکہ عملی اقدامات پرتوجہ دینی چاہئے صوبے کو ان گنت مسائل درپیش ہیں۔ امن وامان کی صورتحال دگرگوں ہے ،شدیدگرمی میں بدترین بجلی لوڈشیڈنگ کاسامناہے، مالی مشکلات الگ سے ہیں اگروزیراعلیٰ اپنی طرزگفتگواورحرکات وسکنات پردانشمندانہ غورفرمائیں تویہ صوبے کے مفادمیں ہوگا ایک جانب صوبے کوشدیدترین مالی بحران کاسامناہے آئندہ مالی سال کابجٹ سرپرہے حکومت کو بجٹ کیلئے وسائل میسر نہیں ۔تودوسری جانب حکومتی وزرااورخودوزیراعلیٰ پشاورمیں بیٹھ کر پریس کانفرنس کے ذریعے کبھی حقوق چھیننے اورکبھی بزوربازوحاصل کرنے کے دعوے کرتے نظرآتے ہیں ۔جس سے نہ ہی وفاق سے واجب الادا رقوم حاصل کی جاسکتی ہیں اورنہ ہی دیگرمعاملات درست ڈگرپرڈالے جاسکتے ہیں ۔اگریہی روش برقراررہی توعین ممکن ہے کہ وفاق سے فنڈزکی حصول میں مزیدمشکلات حائل ہوں۔مشیرخزانہ مزمل اسلم کاکہناہے کہ صوبے کی آمدن کا93 فیصدسے زائد انحصاروفاق سے فنڈزکی ادائیگی پرہے اگرحکومتی زعماء کوصوبے کی مالی مشکلات ومسائل کاادراک ہے تواس کیلئے بیانات اوردھمکیوں سے گریزکیاجائے اور دانش و تدبرکامظاہرہ کرکے گورنرسے تعلقات بحال کئے جائیں بیانات اورگالم گلوچ کے کلچرنے صوبے کوپہلے ہی خاصا نقصان پہنچایاہے۔پرویز خٹک بھی صبح نہارمنہ نوازشریف کے خلاف الٹاسیدھابیان جاری کردیتے تھے جس کالازمی نتیجہ یہی نکلاکہ اب صوبے کی وفاق کے ذمے 15سوارب روپے سے زائدرقم واجب الاداہے جس کیلئے تحریک انصاف نے حسب سابق دھمکی آمیزبیانات کاسلسلہ جاری رکھاہوا ہے۔ حالانکہ دھمکیوں اوربیانات سے معاملات مزیدبگاڑکاشکارہوتے ہیں اورہورہے ہیں ۔صوبے کی عوام نے اگر تحریک انصاف کومینڈیٹ دیا ہے تویہ بیانات کیلئے نہیں بلکہ اپنے مسائل کی حل کیلئے دیاہے اب ادھرادھرکی ہا نکنے کی بجائے بالغ نظری کا مظاہرہ کر کے عوام کے سلگتے مسائل پرتوجہ مرکوزکی جائے ۔ بیانات سے پیٹ نہیں بھرتے آٹے کی قیمت میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی ہے مگر صوبے میں روٹی کے وہی پرانے نرخ چل رہے ہیں ،پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجودٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی نہ آسکی۔ بجلی لوڈشیڈ نگ نے عوام کاجینادوبھرکررکھاہے بلدیاتی ادارے عضوئے معطل بن چکے ہیں مگروزیراعلیٰ پیسکوآفس کاکنٹرول سنبھالنے ، دفاترکوٹیک اوو ر کرنے اورگور نرہاؤس پرقبضہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔کاروبارمملکت بیانات اوردھمکیوں سے نہیں چلاکر تے ۔
صوبائی اسمبلی کااجلاس خاصی تاخیرکے بعدمنعقدہوا۔جس کیلئے حکومت نے گورنرکوسمری بھجوائی مگرگورنرکے دستخط میں تاخیر پرحکومتی ارکان نے ریکوزیش جمع کرواکرفوری طوراجلاس بلالیا۔جلاس میں اکثروبیشتراپوزیشن اورحکومتی ارکان ایکدوسرے کے راہنماؤں پرتنقید کرتے رہے ۔نگران دورکے بجٹ کی منظو ری کے سوا کوئی قابل ذکرکام نہ ہوسکا۔حکومت نے نگران حکومت کا دس ماہ کیلئے 1456ارب روپے کا بجٹ منظورتوکرلیامگراس پرتنقیدکے تیربھی برسائے جاتے رہے حکومتی اراکین کاکہناتھاکہ نگران حکومت تین ماہ کیلئے ہوتی ہے اسے آٹھ ماہ کابجٹ استعمال کرنے کااختیارنہیں مگر نگران حکومت نے نہ صرف ترقیاتی بجٹ استعمال کیابلکہ ساڑھے چارہزارافرادبھی بھرتی کئے ۔حکومتی ارکان نے نگران دورِ حکومت میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کیلئے کمیٹی کے قیام کامطالبہ کیاجس پرپیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کے ارکان نے بھی اتفاق کیااوراس سلسلے میں حکومت کاساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی۔ وزیراعلیٰ نے اس سے قبل پیسکوکولوڈشیدنگ خاتمے کاالٹی میٹم دیا تھاجس پرپیسکونے فوری طورپرچارگھنٹے لوڈشیڈنگ کم کرنے کی یقین دہانی کروائی جن علاقوں میں 22گھنٹے لوڈشیڈنگ تھی اب وہاں18 اورجہاں 18گھنٹے بجلی بندرہتی تھی وہاں اب14گھنٹے بندرہیگی ۔ لوڈشیڈنگ میں کمی کاجاری شدہ اعلامیہ عوام کی زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہے بائیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ظلم ہے اوپرسے بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ والے علاقوں کی بجلی اب 18گھنٹے بندکی جارہی ہے۔وزیراعلیٰ نے اسمبلی سے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھروفاق کودھمکی دی ہے کہ اگرواجبات ادانہ کئے گئے اورلوڈشیڈنگ کم نہ ہوئی تو وہ پیسکوکوٹیک اوورکرلینگے۔ حکومت نے وفاقی وزیربجلی کووزیراعلیٰ ہاؤس آنے اورمسائل حل کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔
ملاکنڈڈویژن میں ٹیکس نفاذکے خلاف احتجاج کاسلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے سوات ،شانگلہ اوربونیرمیں نہ صرف کاروباری مراکزاور بازاریں بندرہیں بلکہ ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابرتھی ۔ملاکنڈڈویژن کے عوام کامطالبہ ہے کہ ڈویژن بھرمیں ٹیکسوں کے نفاذ کافیصلہ واپس لیاجائے۔
گورنراوروزیراعلیٰ کے بعدمئیرپشاورزبیرعلی بھی انہی کے راستے پرچل نکلے ہیں انہوں نے اختیارات اورفنڈزنہ ملنے پرپشاورمیں میٹروپولی ٹن کے دفاترکوتالے لگادئے ۔جس پرڈی جی میٹروپولیٹن نے کمشنرپشاورسے رابطہ کرکے دفاترکھلوانے کی درخواست کی ہے ۔حکومت نے پنجاب کے کسانوں سے 2لاکھ 86ہزارمیٹرک ٹن گندم خریدنے کافیصلہ کیاہے ۔سرکاری نرخ پر خریداری کایہ عمل30 جون تک جاری رہے گا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket