ملاکنڈ ڈویژن ، قبائلی اضلاع کا ایک اور پیچیدہ مسئلہ

ملاکنڈ ڈویژن ، قبائلی اضلاع کا ایک اور پیچیدہ مسئلہ
عقیل یوسفزئی
ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع میں گزشتہ روز ٹیکسوں کے مجوزہ نفاذ کے خلاف ہڑتال کی گئی اور ریلیاں نکالی گئیں۔ ہڑتال اور احتجاج میں تاجروں اور کاروباری حلقوں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں اور وکلاء، سٹوڈنٹس تنظیموں نے حصہ لیتے ہوئے مجوزہ فیصلے کی مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ وہ ملاکنڈ ڈویژن کی جدا گانہ حیثیت برقرار رکھنے کے لیے اس احتجاج سلسلہ کو آگے بڑھائیں گے اور اگر حکومت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی تو آزاد کشمیر کی طرح مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سوات کے سینئر صحافی شہزاد عالم نے کہا ہے کہ پاکستان میں سوات ریاست کے ادغام کے وقت ایک معاہدے کے دعوے کیے جاتے ہیں جس کے تحت اس علاقے کو مروجہ ٹیکسز یا کسٹم وغیرہ سے استثنیٰ حاصل تھا تاہم اس قسم کے کسی معاہدے کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔ شاید کہ ایسی کوئی کمٹمنٹ زبانی طور پر ہوئی ہو تاہم یہ معاملہ اس حوالے سے بعد کی حکومتوں نے متعدد بار یقین دھانی کرائی کہ ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس نظام لاگو نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بقول جب چند برس قبل ایک آئینی طریقہ کار کے مطابق فاٹا اور پاٹا کی حیثیت تبدیل کی گئی تو ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی اور محمود خان کے دور حکومت میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں بعض ترامیم کی گئیں جس کے نتیجے میں ٹیکس نظام لاگو کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا۔ شہزاد عالم کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے حالیہ انتخابات کے دوران بھی تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ سے نوازا ہے اس لیے اب بال ایک بار پھر صوبائی حکومت کی کورٹ میں ہے۔ سینئر تجزیہ کار آصف نثار غیاثی کے مطابق متعدد بار اس ضمن میں استثنیٰ دینے کے اقدامات کیے گئے مگر اب لگ یہ رہا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں یہ نظام لاگو اور نافذ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا ہے اور بعض حلقوں کے مطابق مجوزہ فیصلہ آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی شامل ہے۔
اسباب و عوامل جو کچھ بھی ہو لگ یہ رہا ہے کہ ان علاقوں کو ٹیکس نظام میں لانے پر واقعی سنجیدہ غور جاری ہے۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی نمائندوں اور سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان دو حساس، جنگ زدہ اور پسماندہ علاقوں کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بعض رعایتوں پر مشتمل کوئی نظام یا طریقہ کار سامنے لایا جائے تاکہ کسی عوامی مزاحمت اور ناراضگی کی صورتحال سے بچا جاسکے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket