خیبرپختونخواراؤنڈاَپ
وصال محمد خان
خیبرپختونخوا کے شہری جب ایک دریا کے پار اتر کر دیکھتے ہیں تو انہیں ایک اور دریا کا سامنا ہوتا ہے۔ بنوں میں پرتشدد واقعات کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ کرم میں دو قبائل کے درمیان زمینی تنازعہ پر خونریز تصادم کا آغاز ہو۔
اب بنوں واقعہ کے بارے میں گزشتہ ہفتے بتایا گیا تھا کہ بنوں قومی جرگہ نے وزیراعلیٰ کو گیارہ نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا تھا۔ جس پر وزیراعلیٰ نے صوبائی ای پیکس کمیٹی اجلاس کے بعد تمام مطالبات منظور کر لیے۔ بنوں میں حالات اب معمول پر آچکے ہیں مگر اس واقعے کی تحقیقات کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ بنوں واقعہ کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے کس نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا کہ ایک ہفتے تک معمولات زندگی معطل رہے اور پورا ملک اعصاب شکن افواہوں کی زد میں رہا۔
بنوں کینٹ پر دہشت گرد حملے میں 8 جوانوں اور شہریوں کی شہادت کے بعد کینٹ پر مظاہرین کا حملہ افسوسناک ہے۔ ان تمام واقعات کی شفاف انکوائری ہونی چاہئے۔ ایک جانب سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف نبرآزما ہیں تو دوسری جانب احتجاجی مظاہرین بھی ان کی تنصیبات پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کا عندیہ تو دیا ہے مگر ہائی کورٹ کو اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر کوئی مراسلہ یا خط وغیرہ ارسال نہیں کیا گیا۔
ہاں حکومت نے 9 مئی واقعات کی تحقیقات کیلئے ہائیکورٹ کو ضرور خط لکھا ہے۔ وزیر قانون آفتاب عالم کے مطابق خط میں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ 9 مئی واقعات، اس سے ہونے والے نقصانات اور ذمہ داروں کے تعین کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل دیں تاکہ ملزمان کی شناخت ہو اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ 9 اور 10 مئی 2023ء کو پرتشدد واقعات قومی، فوجی اور نجی تنصیبات و املاک پر حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں سے بعض کو ملٹری کورٹس کے حوالے بھی کیا جا چکا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے بھی ان واقعات کی تحقیقات کیلئے کمیٹی، ٹریبونل یا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کیلئے پشاور ہائیکورٹ کو مراسلہ ارسال کیا ہے۔ ہائیکورٹ رجسٹرار کے نام لکھے گئے مراسلے میں خیبرپختونخوا انکوائریز اینڈ کمیشن ایکٹ 1969ء سمیت کئی قوانین کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ بحیثیت پرنسپل لاء آفیسر صوبائی حکومت نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کا ٹاسک انہیں سونپا ہے لہٰذا چیف جسٹس کسی بھی جوڈیشل افسر کو کمیشن، کمیٹی یا ٹریبونل کیلئے چیئرمین نامزد کریں اور ساتھ ہی نامزد جوڈیشل افسران کے ناموں سے متعلق بھی آگاہ کریں تاکہ صوبائی حکومت اسے نوٹیفائی کر سکے۔
9 اور 10 مئی واقعات کے حوالے سے انکوائری تحریک انصاف کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس قسم کی انکوائری مرکزی سطح پر ہوتی تاکہ پورے ملک میں ہونے والے پرتشدد واقعات کا احاطہ ہوتا۔ کیونکہ 9 اور 10 مئی 2023ء کو توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، نجی، قومی اور فوجی تنصیبات پر حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر صرف خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کارکنان کے خلاف کارروائیاں نہیں ہوئیں بلکہ یہ کارروائیاں پنجاب اور سندھ میں بھی ہوئی ہیں۔
اول تو اس حوالے سے کسی انکوائری وغیرہ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جن لوگوں نے پرتشدد واقعات میں حصہ لیا تھا ان کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں اور ان واقعات میں کسی دیگر جماعت کے کارکنوں یا باہر سے کسی فرد کا ملوث ہونا بعید از قیاس ہے بلکہ اب تو عمران خان بھی جی ایچ کیو پر احتجاج کا اعتراف کر چکے ہیں۔ مگر اب چونکہ صوبائی حکومت نے تحقیقات کا فیصلہ کر ہی لیا ہے کیونکہ اس کے پاس حکومت ہے اور حکومتی توسط سے پہلے ہی بہت سے نام خارج کئے جا چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پولیس کو دھمکی آمیز انداز میں تنبیہ بھی کر چکے ہیں۔
اب جبکہ ہائیکورٹ کو اس معاملے میں ملوث کیا ہی جا چکا ہے تو ہائیکورٹ کو غیر جانبدار افراد پر مشتمل کمیشن تشکیل دینا چاہئے تاکہ تحریک انصاف کی تشفی ہو۔ ان واقعات میں ملوث افراد یعنی تحریک انصاف کے کارکنان کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ امید ہے مجوزہ کمیشن ان ثبوتوں کا باریک بینی سے جائزہ لے گی۔
کرم ایجنسی میں دو قبائل کے درمیان زمین کی ملکیت کا عشروں پرانا تنازعہ چلاآرہا ہے جس پر اکثر و بیشتر مسلح تصادم ہوتے رہتے ہیں۔ حالیہ خونی تصادم کے نتیجے میں لگ بھگ 50 افراد جاں بحق جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں ایک ہفتے تک علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ صوبائی حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی۔ خونی تصادم کے دوران وزیراعلیٰ فوج اور آپریشن عزم استحکام کے خلاف بیان بازی میں مصروف رہے۔
صوبے میں امن وامان کی مجموعی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہے مگر بنوں اور کرم جیسے واقعات سے عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ کرم کا معاملہ اسلئے بھی زیادہ نازک اور قابل توجہ ہے کہ وہاں زمینی تنازعہ فرقہ واریت میں تبدیل ہو جاتا ہے کیونکہ دونوں متحارب قبائل کا تعلق مختلف مسالک سے ہے۔ صوبائی حکومت وفاق کے خلاف بیانات اور بانی پی ٹی آئی کی بے گناہی کی گردان چھوڑ کر امن وامان اور حکومتی معاملات پر توجہ دے۔ قبائلی اضلاع میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے جس کے نتیجے میں آئے روز بدامنی اور خونریزی کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ حکومت کو سابقہ قبائلی اضلاع میں اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے نظر آنے والے اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔
کرم میں ضلعی انتظامیہ، مقامی اور سیاسی جرگوں کی کوششوں سے فائربندی ہو گئی ہے مگر یہ معاملہ سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔ اسے مستقل طور پر حل کرنے کی کنجی حکومت کے پاس ہے۔ خونریزی کے اس مکروہ سلسلے کی روک تھام کیلئے اراضیات کی حد براری جلد از جلد ہونی چاہئے اور یہ کام حکومت ہی کر سکتی ہے۔