وصا ل محمدخان
خیبرپختونخواحکومت نے وفاق سے پہلے اپنابجٹ پیش کیاہے جس پرتنقیدکاسلسلہ جاری ہے اپوزیشن ارکان کاکہناہے کہ وفاقی حکومت سے پہلے بجٹ پیش کرناغیرحقیقی ہے صوبائی حکومتیں ہمیشہ وفاقی حکومت کے بعداپنے بجٹس پیش کرتی ہیں تاکہ صوبہ وفاق سے ملنے والے محا صل کومدنظررکھتے ہوئے بجٹ بنا سکے مگراس مرتبہ صوبائی حکومت نے وفاق سے تین ہفتے قبل اپنابجٹ پیش کیاجس پربحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی اورگورنرکے بھائی احمدکنڈی نے سمندرکوکوزے میں بندکیااور مدلل اندازسے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘بجٹ مفروضوں پرمبنی اورغیرحقیقی ہے ۔بجٹ تخمینہ 1700 جبکہ اخراجات 16سوارب روپے ظاہرکئے گئے ہیں۔ وفاقی بجٹ پیش ہونے اوروفاق کی جانب سے صوبے کے حصے کاتعین ہونے سے پہلے بجٹ پیش کرنابے معنی ہے صوبائی بجٹ کا93فیصدانحصاروفاق پر ہے جبکہ صرف7فیصداپنے وسائل یابیرونی مالیاتی اداروں سے قرض وغیرہ پرہے 93فیصدبجٹ بے سروپاہے فلاحی ریاست کے دعویدارو ں نے مسلسل دس سال تک صوبے کیساتھ ظلم ہی کیاہے نہ توصوبا ئی وسائل کادرست استعمال کیاگیا،نہ ہی اپنی حکومت میں وفاق سے واجبات واگزارکروائے جاسکے اورنہ ہی کیس بناسکے ،صوبائی حکومت طاقت سے حق لینے کی ڈینگیں مارتی ہے مگراب تک قابل قبول کیس ہی تیارنہ کرسکی ۔تحریک انصاف دورِ حکومت میں صوبے کوصرف 80 ارب رو پے اداکئے گئے حق چھیننے والے اس وقت کہاں تھے؟ جنوبی ایشیاکا سب سے بڑاہائیڈروپاورپراجیکٹ تربیلاکی صورت میں صوبے کے پاس ہے اوروفاق کیساتھ مسئلہ بھی ہائیڈروپرافٹ کاہے مگرسنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ صوبے کے پاس انرجی کاکوئی وزیرہی نہیں’’ حسب معمول حکومتی ممبران نے بجٹ کوحقیقت پسندانہ، غریب دوست اورمشکل حالات میں بہترین بجٹ قراردیا ہے۔ وفاق سے پہلے بجٹ پیش کرنے پرحکومت تنقیدکی زدمیں ہے ۔جس پرحکومت کے پاس ‘‘آئینی حق حاصل ہے ’’کے سواکوئی جوازموجودنہیں اس سے صوبائی حکومت شائدیہ باورکرواناچاہتی ہے کہ اسکی نظرمیں وفاقی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں یاپھر‘‘وفاق میں کیاحکومت ہوگی حکومت توہماری ہے کہ بجٹ بھی وفاق سے پہلے پیش کیا’’ والی سوچ کارفرماہے۔وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان صوبے میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے ،بجلی واجبات کی وصولی اورلائن لاسزمیں کمی کے حوالے سے طویل گفت وشنیدکے بعداتفاق رائے طے پاگیاہے۔ہفتۂ گزشتہ کے دوران وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپور،وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اوروزیرتوانائی اویس لغاری کے درمیان مفیدملاقاتیں ہوئیں جس کے بعدمشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپورکاکہناتھاکہ‘‘ وفاق کیساتھ صوبے میں طویل اورغیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کامسئلہ چلاآرہاتھا،ہم بجلی بناکر پورے ملک کوسپلائی کررہے ہیں ،اسکے باوجودہمار ے ہاں لوڈشیڈنگ بہت زیادہ ہے ہم نے اس پلیٹ فارم پریقین دہانی کروائی کہ بجلی کی مدمیں بقایاجات اداکرینگے لائن لاسزاوربجلی چوری میں کمی کیلئے کمیونٹی بیسڈمہم بھی چلائینگے، وفاق کیساتھ معاملات طے پاگئے ہیں، ہم وفاق کاشکریہ ادا کرتے ہیں، کہ اس نے صوبے کی عوام، امن وامان اور معاشی ابتری کااحساس کیاہے، میری ملاقات کسی شخص سے نہیں بلکہ ملک کے وزیرداخلہ اوروزیرتوانائی سے ہوئی ہے،گورنر خیبرپختونخواکیساتھ بھی کوئی ذاتی اختلاف نہیں’’ ۔اویس لغاری کاکہناتھاکہ ہم نے سیاسی مخالفت کے باوجودمسائل کاحل نکال لیاہے اس حل کودیگرصوبوں کیلئے بطورماڈل استعمال کیاجاسکتاہے خیبرپختونخوامیں جتنی جلدبجلی چوری ختم ہوگی اتنی ہی جلد لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا۔ وفاق میں وزیراعلیٰ کی ملاقاتوں اورمشترکہ پریس کانفرنس سے امیدپیدا ہوئی ہے کہ صوبے کے مسائل میں کمی آئے گی عوامی اورسماجی حلقوں میں اس ڈویلپمنٹ کوسراہاگیاہے ۔مگردوسرے ہی دن وزیراعلیٰ نے پشاور میں دوبارہ فارم 45اور47کی رٹ دہرائی اور کہاکہ وفاق سے اپناحق لیناجانتے ہیں ۔وزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے وفاق کیساتھ اپنے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرے بیانات دربیانات اوردھمکیوں سے نہ ہی کوئی مسئلہ کبھی حل ہواہے اورنہ ہی آئندہ ایساکوئی امکان موجودہے۔وفاق میں تجربہ کار سیاستدان حکومت کاحصہ ہیں جوبات کوسمجھتے ہیں اگرانکے ساتھ افہام وتفہیم اور باوقارطریقے سے بات ہوتوکوئی وجہ نہیں کہ مسائل کاحل نہ نکلے ۔ گورنرفیصل کریم کنڈی نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی ہے ملاقات کے بعد گورنرکاکہناتھاکہ ایس آئی ایف سی کی اپیکس کمیٹی میں وزیراعلیٰ کومیرے کہنے پربلایاگیاانہوں نے وزیراعلیٰ کومعاملات افہام وتفہیم سے حل کرنے کامشورہ دیا۔
خیبرپختونخواہاؤس اسلام آبادمیں کمرے غیرمتعلقہ افرادکودینے کاانکشاف ہواہے یہ معاملہ اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے اٹھایاہے اپوزیشن ارکان عدنان وزیر،ریحانہ اسماعیل اورثوبیہ شاہد کی جانب سے پختونخواہاؤس میں کمرے نہ ملنے کامعاملہ اٹھایاگیاایوان کوبتایاگیاکہ بیوروکر یسی کے لوگ کمرے بک ہونے کابہانہ بناتے ہیں اورارکان کوتین دن سے زائدرہنے بھی نہیں دیاجاتاہم جب بھی کے پی ہاؤس جاتے ہیں وہاں غیرمتعلقہ افرادموجودہوتے ہیں وزیرخزانہ نے بھی اپوزیشن ارکان کی ہاں میں ہاں ملائی اورکہاکہ کے پی ہاؤس میں رہنے کاحق ممبران صوبائی اسمبلی کاہے اگرارکان اسمبلی کواس حوالے سے شکایات ہیں توسپیکراس کیلئے کمیٹی تشکیل دیں ۔جومعاملے کاجائزہ لیکر رپورٹ پیش کرے جس پرسپیکرنے کہاکہ آپ خودوزیرہیں تو مطالبہ کس سے کررہے ہیں؟ یہ تحقیقات آپ خودبھی کرواسکتے ہیں ۔مبینہ طور پر کے پی ہاؤس اسلام آبادمیں پی ٹی آئی کی دیگرصوبوں سے راہنمااورکارکن آکررہتے ہیں۔ جن کے اخراجات صوبہ برداشت کرتاہے۔ تحریک انصاف کی گزشتہ دوحکومتوں پربھی غریب صوبے کے وسائل پارٹی اوراسکے راہنماؤں پرخرچ کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔ حالیہ معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔تاکہ صوبے کے وسائل کایوں ضیاع نہ ہو۔
صوبائی حکومت نے کفایت شعاری پالیسی کے تحت وزراکاماہانہ پٹرول چھ سولیٹرسے کم کرکے 390لیٹرکردیاہے وزیرخزانہ آفتاب عالم کا کہناتھاکہ‘‘ صوبے کی معاشی حالات کے پیش نظر غیرضروری منصوبے ختم کئے گئے ہیں وفاقی حکومت تمباکوپراربوں روپے ٹیکس لیتی ہے مگر صوبے کوصرف پچاس کروڑکی ادائیگی ہوتی ہے اس ظلم کے خلاف عدالت جانے کافیصلہ کیاگیاہے اپنے حق کیلئے وفاق کو12خطوط لکھ چکے ہیں مگراس کاکوئی جواب نہیں دیاجارہاانہوں نے مطالبات زرکی تحریک کے دوران اپوزیشن ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے تسلیم کیاکہ صحت کارڈمیں خامیاں ہیں جن کی اصلاح کررہے ہیں ہم مانتے ہیں کہ صحت کارڈکاغلط استعمال ہواہے لیکن اس میں بہتری لانے کی کوشش ہورہی ہے وفاق کے ذمے صوبے کے واجبات1800ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں صوبے کو 1999ء مردم شماری کے مطابق 14فیصد کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے اگر2023ء کی مردم شماری کے مطابق ادائیگی ہوتویہ 19 فیصدبنتاہے’’۔
پشتوکے معروف مزاحیہ اداکار،گلوکار،شاعراورصداکارحیات خان المعروف میراوس عمررسیدگی میں کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں وہ ان دنوں شدیدعلالت کے سبب پشاورکے مقامی ہسپتال میں داخل ہیں فن کیلئے انکی خدمات اورمقبولیت کایہ عالم ہے کہ پشتوزبان جاننے والا شائدہی کوئی فردانکے نام سے واقف نہ ہوفنکاربرادری اورتمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے صوبائی اوروفاقی حکومتوں سے مطالبہ کیاہے کہ میراوس کو مالی امداداور بہترین علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ان جیسے عظیم فنکارصدیوں بعدپیداہوتے ہیں ۔
