ضلع صوابی خیبر پختونخوا کا وہ تاریخی خطہ ہے جس نے ہر دور میں نامور اور کامیاب شخصیات پیدا کر کے صوبے اور ملک کی سیاسی،تعلیمی، ادبی اور انتظامی شعبوں میں نمایاں نام پیدا کیا ہے اور کامیابیوں کا یہ سفر ہر دور میں نہ صرف جاری رہا بلکہ اس فہرست میں نئے نام اور ریکارڈز شامل ہوتے رہے۔
صوابی کے مشہورزمانہ گاؤں پنج پیر کا برصغیر کی تاریخ میں بہت نمایاں مقام رہا ہے۔یہاں سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین شیخ القرآن مولانا محمد طاہر اس گاؤں کی ابتدائی پہچان ہےجن کو عصری علوم پر کمال کا عبور حاصل تھا اور انہوں نے صوبے میں منفی رواج اور روایات کے خاتمے میں شاندار خدمات سرانجام دے کر نہ صرف دین کی خدمت کی بلکہ ان کو بجا طور پر اس زمانے کے بہترین سوشل ریفارمر کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ان کے ہزاروں شاگردوں نے ان کے فلسفے کو آگے بڑھایا اور یہ کام جاری ہے۔ پنج پیر کو عوام اب بھی ان کی خدمات اور نام کے باعث جانتے ہیں۔
اس گاؤں کے اسی خاندان نے تقریباً ایک درجن فوجی افسران اور دانشور بھی پیدا کئے جو کہ ایک اور منفرد اعزاز ہے جن میں 80 کی دہائی میں آئی ایس آئی کے پلیٹ فارم سے عالمی شہرت پانے والے میجر (ر) محمد عامر بھی شامل ہیں جن کو ان کے غیر معمولی کردار کے حوالے سے اب بھی متعلقہ حلقوں میں یاد کیا جاتا ہے اور وہ ہر وقت زیر بحث رہتے ہیں۔ وہ مولانا محمد طاہر کے صاحبزادے ہیں۔ شیخ القرآن کے دوسرے بیٹے مولانا طیب مدرسہِ پنج پیر کےمھتمم جب کہ سب سے چھوٹے بیٹے حماد حسن ایک اچھے دانشور اور لکھاّری ہیں ۔
اسی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک باصلاحیت فوجی آفیسر محترمہ نگار جوہرکو حال ہی میں پاکستان کی پہلی تھری سٹار لیفٹیننٹ جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے جس پر نہ صرف خواتین بلکہ زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام فخر کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ مولانا محمد طاہر کی نواسی جبکہ میجر محمد عامر کی بھانجی ہے۔ ان کے والد بھی ماضی میں فوج کا حصہ رہے ہیں اور ان کا کیریئر بھی بہت شاندار تھا تاہم وہ اپنی دو بیٹیوں (نگار جوہر کی بہنوں)، اہلیہ اور ڈرائیور کے ہمراہ کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے سڑک حادثہ کا نشانہ بنے جس کے بعد نگار جوہر اور ان کے دو چھوٹے بھائیو ں کی تربیت پنج پیر میں ہی ہوئی اور ان کے دونوں بھائی بھی فوج میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ نگار جوہر کے شوہر میجر (ر) جوہر نے فوج سے ریٹائرمنٹ لی جن کا چند ماہ قبل انتقال ہوا اور ان کو پنج پیر میں ہی سپردخاک کر دیا گیا کیونکہ وہ بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔
اطلاعات کے مطابق نگار جوہر کو فوجی حلقوں میں نہ صرف انتہائی احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان کی فوجی تاریخ میں وہ پہلی لیفٹیننٹ جنرل کے حالیہ اعزاز کے علاوہ متعدد دوسرے منفرد اعزازات کی حامل رہی ہیں بلکہ ان کو “موور” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت حرکت اور کام کرتے دکھائی دیتی ہیں بلکہ وہ دوسرے افسران کے مقابلے میں تنہا بہت سے کام بیک وقت کر لیتی ہیں۔ ڈاکٹر نگار جوہر آرمی کی میڈیکل کور کی فیلڈ اور ایڈمنسٹریشن دونوں شعبوں میں بہترین خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ جس کے صلے میں ان کو سال 2017 کے دوران میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور وہ اس عہدے پر وہ ترقی پانے والی پاک فوج کی تیسری خاتون تھی تاہم حالیہ ترقی نے نہ صرف ان کو ایک اور منفرد اعزاز سے نوازا بلکہ وہ ملک کی عسکری تاریخ میں لیفٹیننٹ جنرل بننے والی پہلی خاتون بن گئی ہیں اور غالبا ًیہی وجہ ہے کہ ان کی ترقی اور اس منفرد اعزاز پر لوگ جہاں خوشی کا اظہار کر کے ملک خصوصاً خیبرپختونخوا کے لئے بڑا فخر قرار دے رہے ہیں۔ وہاں ان کی ذات اور خدمات کو بطور مثال بھی پیش کیا جا رہا ہے اور ساتھ میں ان کے خاندان کو بھی خراج تحسین پیش کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر نگار جوہر فوجی حلقوں میں اپنے نظم و ضبط کے باعث زیر بحث رہی ہیں اور یہی وجہ اور خصوصیت بھی ان کی اتنی ترقی اور بے مثال کامیابی کا راستہ ہموار کر گئی تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خاندانی اور گھریلو معاملات، رویے اور طور طریقوں میں ہماری ثقافتی اقدار کی پیروی میں بھی مثال نہیں رکھتی اور ایسے مواقع پر وہ ایک روایتی اور عام پشتون خا تون لگ رہی ہوتی ہیں جو کہ ایک اور خاصیت ہے۔