Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

نائن الیون کے آفٹر شاکس،  موجودہ افغانستان اور بدلتے حالات

نائن الیون کے واقعے یا حملے کو 20 برس مکمل ہو گئے ہیں ۔ دنیا کی تاریخ میں یہ بہت سی جنگوں اور تبدیلیوں کا باعث بنا تاہم افغانستان اور پاکستان اس واقعہ سےگزشتہ 20 برسوں کے دوران مسلسل متاثر ہوتے گئے اور امریکی انخلا نے خطے  میں بعض نئے مگر سنگین نوعیت کے مسائل خدشات اور چیلنجز کو جنم دے رکھا ہے۔  نائن الیون کے واقعے میں تقریباً 3800  افراد کی ہلاکتیں ہوئیں تاہم گزشتہ 20 برسوں کے دوران امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اس واقعے کی آڑ میں انسداد دہشت گردی کے نام پر تقریباً تین لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا اور تقریبا ً نصف درجن ممالک میں اب بھی جنگوں،  بدامنی اور شورش کی صورتحال ہے۔

 اس واقعے میں کوئی افغان یا پاکستانی براہ راست ملوث نہیں تھا حملہ آور سب کے سب  عرب تھے اور القاعدہ کو پاکستان یا افغانستان میں کوئی عوامی حمایت بھی حاصل نہیں تھی۔  اس کے باوجود حملے کے بعد صدر بش جونیئر اور ان کی ٹیم نے اسے صلیبی جنگوں کا تسلسل قرار دے کر نہ صرف افغانستان پر اتحادیوں سمیت حملہ کیا بلکہ تہذیبوں کے تصادم کی مغربی تھیوری کے علاوہ نیو ورلڈ آرڈر جیسے فارمولے کو آزمانے کی کوشش بھی کی۔

افغانستان میں گزشتہ 20 برسوں کے دوران جاری جنگ سے تقریبا ًدو لاکھ افراد ہلاک ہوئےجن میں 15 ہزار غیر ملکی بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان میں دہشت گرد کے واقعات کے نتیجے میں تقریباً 90 ہزار افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں اہم شخصیات کے علاوہ فورسز کے 12 ہزار اہلکار اور افسران بھی شامل ہیں۔  تاہم المیہ یہ ہے کہ 20 برسوں کی سرمایہ کاری، مسلسل کارروائیوں اور دیگر اقدامات کے باوجود افغانستان میں نہ تو امن قائم کیا جا سکا اور نہ ہی جن مقاصد کے حصول کے دعوے کیے گئے تھے ان کو پورا کیا جا سکا جس کا منطقی انجام دنیا نے 15اگست کو افغان طالبان کے کابل میں کسی مزاحمت کے بغیر داخل اور 31 اگست کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مکمل فوجی انخلا کی صورت میں دیکھا۔

صدر جو بائیڈن نے کلِ عام شکست کا اعتراف کر کے موقف اپنایا کہ ان کی سرمایہ کاری ضا ئیع  ہوگئی ہے اور یہ کہ وہ امریکہ کی تیسری نسل کو اس جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے۔دوسری طرف برطانیہ نے اعلیٰ سطح پر اپنے اتحادی امریکہ کی سپر پاور کے اسٹیٹس کو چیلنج کرکے یہ تک کہا کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا۔

 افغان طالبان 20 سالہ مزاحمت کے بعد پھر سے افغانستان کے حکمران بن بیٹھے جبکہ عالمی برادری کے حمایت یافتہ افغان حکمران اور ادارے میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔  امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تقریباً تین سے پانچ ٹرلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔  یوں ماہرین نے 2021 کو امریکہ کے لیے ویت نام سے بھی بڑی شکست کا مہینہ قرار دے کر افغانستان کو سلطنتوں کے قبرستان کا خطاب دے کر اس کے انخلا کو مکمل شکست سے تعبیر کر کے اس کو امریکہ کے علاوہ نیٹو کی پہلی شرمناک ناکامی کا نام دے دیا کیونکہ ویت نام کی جنگ میں صرف امریکہ شکست کھا گیا تھا اور یہاں اس کے پچاس کے لگ بھگ اتحادی بھی ناکامی سے دوچاہو گئے تھے۔

یہ ناکامی صرف فوجی شکست تک محدود نہیں رہی بلکہ امریکہ نے افغانستان میں جن لوگوں اور اداروں پر کھربوں کی سرمایہ کاری کی تھی وہ بھی نظام کے گرنے سے ضائع ہو گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادیوں کے علاوہ امریکیوں کی بڑی تعداد بھی 20 سالہ پالیسی پر سوالات اٹھانے لگی۔ دوسری طرف جو بائیڈن نے روس اور چین کو مستقبل کے دشمن قرار دینے کی پالیسی اپنا کر یہ اشارہ دینا شروع کیا کہ کھیل  ابھی جاری ہے اور بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

پاکستان پر بوجوہ  یہ 20 سال بہت بھاری گزرے۔  اس کو تقریباً چھے سو ڈرون حملوں اور خودکش دھماکوں کا سامنا کرنا پڑا۔  ایک لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوئی اور اربوں کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا تو دوسری طرف اسے عالمی دباؤ اور پابندیوں سمیت دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔

اس کو تنہا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تاہم سال 2018 کے بعد جب مذاکرات کی ضرورت پیش آئی تو عالمی  رویہ بدلنا شروع ہوگیا اور پاکستان کی اہمیت میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ جنوری2020 کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا معاہدے کی صورت میں جو پیش رفت ہوئی پاکستان نے اس میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔  امریکہ اس کے کردار کو افغانوں کی طرح مسلسل شک کی نظر سے دیکھتا رہا مگر طالبان قبضے اور دیگر غیر متوقع حالات نے اسے باوجود پھر سے پاکستان کا محتاج بنایا۔  دوسری طرف چین،  روس،  ایران اور بعض یورپی ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور اس کے علاقائی اور عالمی کردار کو تسلیم کرکے نئی پیش رفت کو پاکستان کا بھی کریڈٹ قرار دیا گیا۔  جس پر بھارت میں بہت واویلا مچا گیا اور ماہرین اپنے حکمرانوں پر چڑھ دوڑے۔

  گذشتہ 20 برسوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے جو علاقے دو طرفہ حملوں، شورش اور بدامنی سے بری طرح متاثر ہوئے بدقسمتی سے وہ پشتون علاقے تھے کیونکہ افغانستان کے ساتھ ان علاقوں کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں شدت پسند اس کا فائدہ اٹھاتے رہے جبکہ یہاں اسلام پسندی کا کلچر بھی زیادہ رہا تاہم نیشنل ایکشن پلان، بارڈر فنسنگ اور فاٹا انضمام کے نئے عسکری معاشی اور انتظامی اقدامات اور اصلاحات پر توجہ دی گئی جس کے باعث بہت بہتری واقع ہوئی بعض سازشوں اور خدشات کے باوجود یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket