Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 27, 2024

پختونخواہ میں میجر سمیت کرونا سے 250 افراد جاں بحق

تمام تر حکومتی اور سماجی اقدامات اور اپیلوں کے باوجود کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے جبکہ حالیہ دنوں کے دوران اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی کہیے یا بد احتیاطی کہ اموات کی تعداد میں خیبرپختونخوا سرفہرست ہے جبکہ خیبرپختونخواہ میں پشاور ڈیویژن کی اموات اور کیسز سب سے زیادہ ہیں۔ پشاور ڈویژن میں دس مئی کی ایک رپورٹ کے مطابق 152 اموات ہوئی تھیں جبکہ مریضوں کی تعداد اسی روز 1970 رہی۔ سوات دوسرےنمبر پر رہا جہاں کیسز کی تعداد ہفتہ رفتہ کے دوران بھی بڑھتی دکھائی دی اور ہر نیا دن پہلے سے بدتر ثابت ہو رہا ہے۔

گیارہ مئی کی جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دس مئی کو صرف پشاور میں دس مریض کو رونا سے لقمہ اجل بن گئے تھے جس کے بعد خیبرپختونخواہ میں مجموعی اموات کی تعداد 248 ریکارڈ کی گئی جس پر گیارہ مئی کے روز ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن  میں بھی تشویش کا اظہار کیا اس عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 10 مئی تک پاکستان میں 30950کرونا کیسز ریکارڈ ہوئے تھے کیسزکی صوبہ وار تعداد اس طرح رہی کہ خیبر پختونخوا میں 4670، بلوچستان میں 2018 ، سندھ میں 11480، پنجاب میں 11570، کشمیر میں 86 جبکہ گلگت بلتستان میں 450 کیسز سامنے آئے تھے تاہم اموات کی شرح یا تعداد کے لحاظ سے حسب سابق کم آبادی والا خیبرپختونخوا سرفہرست رہاجہاں 248افراد کرونا وائرس کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ دوسرے نمبر پر اموات کی زیادہ تعداد پنجاب اور تیسرے نمبر پر سندھ میں رہی۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق 10 اپریل کے بعد پاکستان میں کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھتی ر ہی اور روزانہ متاثرین یا مریضوں کی تعداد میں تقریبا ً 1700افراد کا اضافہ ریکارڈ ہوا۔ اسی عالمی ادارے نے کہا کہ دس اور گیارہ مئی پر مشتمل 24 گھنٹے کے دوران پاکستان میں 48 اموات سامنے آئے اور خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر یہ اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو یہ خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ بدقسمتی یا لاعلمی سے اب بھی بہت لوگ اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے اس مرض یا وباءسے عام لوگوں کے علاوہ میڈیکل سٹاف، پولیس، فورسز، میڈیا ورکرز اور حکومتی عہدیداران کی بڑھتی تعداد کے علاوہ کئی نامور سائنسدان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ نوجوان صحافی زاہد عثمان کے مطابق اب تک صوبے میں کرونا وائرس سے میڈیکل سٹاف کے 200 سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سینئر ڈاکٹرز نرسز اور پیرا میڈیکس کے دوسرے افراد شامل ہیں جبکہ یہ تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے ان کے مطابق دو درجن سے زائد بیوروکریٹس اور سائنسدان بھی متاثرین میں شامل ہے جبکہ امدادی اداروں کے فیلڈ ورکرز کو بھی خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے تعداد میں اضافے کی وجہ وہ عوام کی بد احتیاطی، بعض اداروں کی غیر سنجیدگی اور منفی پروپیگنڈے پر مشتمل رویہ قرار دے رہے ہیں۔

ُادھر 10 مئی کے روز طورخم بارڈر پر تعینات پاک فوج کے ایک نوجوان اور خوبرو آفیسر میجر اصغر بھی فرائض کی بہترین بجا آوری کے دوران کرونا وائرس کا شکار ہو گئے 37 سالہ میجر اصغر ایف سی کے 143 سی ایس ونگ میں تعینات تھے۔ ان کے لواحقین میں ایک اہلیہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ ان کو گزشتہ روز سانس اور کھانسی کی تکلیف ہوئی جس کے بعد سی ایم ایچ میں ان میں کرونا کی تصدیق ہوگئی اور دوران علاج ان کا ہسپتال ہی میں انتقال ہوگیا۔

تحقیقی رپورٹس پر کام کرنے والے پشاور کے باصلاحیت صحافی اظہار اللہ کے مطابق میجر اصغر نہ صرف بہت خوش اخلاق اور ہمدرد آفیسر تھے بلکہ وہ پاکستانی متعلقہ اہلکاروں کے علاوہ بارڈر کے اُس پار تعینات افغان اہلکاروں اور افسران میں بھی اپنے دوستانہ اور ہمدردانہ رویہ کے باعث بہت مقبول تھے۔ ان کے مطابق وہ چند روز قبل اپنی سٹوری فائل کرنے طورخم گئے تو میجر اصغر عام اہلکاروں کی طرح فیلڈ میں خود کام کرتے دکھائی دیے بلکہ دوران گفتگو افغان اہلکاروں نے ان کو بتایا کہ ہم میجر اصغر کو ان کے رویے اور مسلسل تعاون کے باعث اپنا آفیسر سمجھ رہے ہیں۔ اس قسم کے ا ہم لوگوں کی اموات اور قربانی کا سلسلہ جاری ہے مگر عوام۔۔۔؟

دوسری طرف عوام اور تاجر اتنی اموات اور کیسز کی بڑھتی تعداد کے باوجود حکومت سے وہ تعاون کرتے دکھائی نہیں دے رہے جس کی ضرورت ہے حکومت نے بڑا رسک لے کر جزوی لاک ڈاؤن کوسوفٹ لاک ڈاؤن میں تبدیل کردیا ۔ تاہم اتوار اور پیر کے روز پشاور شہر سمیت تمام بڑے شہروں میں اس رعایت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے علاوہ تعلیم یافتہ حلقے اور خواص بھی اپنی فیملیز کے ساتھ شاپنگ سنٹرز پر ٹوٹ پڑے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں اکثریت سرکاری افسران اور اہلکاروں کی تھی جو کہ بہت افسوس ناک بلکہ شرمناک اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کی نرمی اور رعایت سے ناجائز فائدہ اٹھانے سے گریز کیا جائے اور حکومت کو سختی پر مجبور نہ کیا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket