پی کے 22 باجوڑ کا اضمنی انتخاب
وصال محمد خان
گزشتہ انتخابات کے دوران باجوڑ میں ایک قومی اور ایک صوبائی حلقے سے آزاد امیدوار ریحان زیب انتخابی مہم کے دوران قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے۔ ریحان زیب بنیادی طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے تھے مگر ٹکٹ نہ ملنے کے باعث آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں تھے۔ ان کے معمر والد اور بھائی موجودہ ممبر قومی اسمبلی مبارک زیب نے قتل کا الزام پی ٹی آئی امیدوار پر لگا دیا۔ امیدوار کے انتقال کے سبب ایک قومی اور ایک صوبائی حلقے کے انتخابات ملتوی ہوئے۔
عام تاثر یہ تھا کہ پی ٹی آئی امیدوار کو ریحان زیب سے خطرہ تھا۔ انہیں الیکشن سے دست بردار کروانے کی کوششیں ہوئیں مگر وہ انتخابات میں حصہ لینے پر بضد تھے جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی جان گنوا دی۔
عام انتخابات کے انعقاد اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی سنی اتحاد کونسل کے روپ میں حکومت بننے کے بعد دونوں حلقوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجے میں دونوں حلقوں پر قتل ہونے والے امیدوار کے بھائی مبارک زیب نے میدان مار لیا۔ مبارک زیب کو بھی دستبردار کروانے کی بہتیری کوششیں ہوئیں۔ مبینہ طور پر حکومتی جانب سے انہیں کروڑوں روپے اور سرکاری نوکریوں کی آفرز ہوئیں جو انہوں نے ٹھکرا دیں۔ دونوں حلقوں پر کامیاب ہونے کے بعد مبارک زیب نے قومی اسمبلی کی نشست پاس رکھ کر صوبائی نشست چھوڑ دی۔ جس پر 11 جولائی کو ایک مرتبہ پھر ضمنی الیکشن کا انعقاد ہوا۔
اس مرتبہ چونکہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوچکی تھی اس کے پاس حلقے میں مضبوط امیدوار موجود تھے اور عام تاثر یہ تھا کہ حکومتی امیدوار بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کریں گے۔ صوبائی حکومت نے بھی نشست حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ حلقے سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار اور رکن قومی اسمبلی مبارک زیب کو رام کرکے سنی اتحاد کونسل کی حمایت پر آمادہ کر لیا گیا۔ اس اقدام کا الٹا اثر ہوا اور شہید ریحان زیب کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں نے حکومتی امیدوار کی حمایت سے انکار کیا۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کی کارکردگی بھی ناقص رہی ہے۔ وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور چونکہ سنجیدہ، بردبار اور مدبر سیاستدان نہیں ہیں۔ وہ آئے روز خبروں میں اِن رہنے کیلئے ادھر ادھر کے فضول اور بے معنی بیانات کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ وہ اسلام آباد جا کر وفاقی حکومت کے ساتھ تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل ہونے کی نوید سناتے ہیں جبکہ واپس آ کر وفاقی حکومت کے خلاف لعن طعن شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی فلمی ڈائیلاگ بازی کا شغل فرماتے ہیں تو کبھی گورنر فیصل کریم کنڈی اور پرویز خٹک کو صوبہ بدر کرنے کے اعلانات فرماتے رہتے ہیں۔
الٹی سیدھی ہانکنے اور غیر سنجیدہ روئیہ اپنانے کے باعث عوام ان سے نالاں ہیں۔ صوبے میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہہ ہے۔ وزیراعلیٰ کے اپنے ضلع سے سیکیورٹی اہلکار اغوا ہو رہے ہیں اور ان پر حملے ہو رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ای پیکس کمیٹی جیسے اہم نوعیت کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کی حمایت کرتے ہیں جبکہ صوبے میں واپس آ کر مخالفت کر دیتے ہیں۔ آئے روز عمران خان کی رہائی کے اعلانات فرماتے رہتے ہیں حالانکہ عوام نے انہیں ووٹ عمران خان کی حفاظت یا رہائی کے لئے نہیں دئے بلکہ ان کا انتخاب عوامی مسائل کے حل کے لئے عمل میں آیا ہے مگر وہ اپنے فرائض چھوڑ کر غیر ضروری مسائل میں الجھ چکے ہیں۔
عوامی فلاح و بہبود کے لئے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں جس کے نتیجے میں باجوڑ کے ضمنی الیکشن میں حکومتی جماعت کی پوزیشن خاصی خراب نظر آ رہی تھی۔ حکومت نے اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا اور بڑے بڑے وعدے بھی کئے مگر عوام نے اے این پی کے حق میں فیصلہ دے کر ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی ال معروف سنی اتحاد کونسل کے امیدوار چوتھے نمبر پر رہے۔ ان سے زیادہ ووٹ جماعت اسلامی اور ایک آزاد امیدوار نے حاصل کئے۔
اے این پی امیدوار کی کامیابی میں کئی عوامل کارفرما رہے۔ ایک تو نوجوان امیدوار نثار باز نے اپنی انتخابی مہم بھرپور انداز میں چلائی۔ پارٹی کی مرکزی قیادت نے ان کا بھرپور ساتھ دیا جبکہ پی ٹی آئی کی جو قیادت بچی ہے اس کا خیال ہے کہ لوگوں کو عمران خان کا نام لے کر اور الٹے سیدھے نعرے لگا کر ہمیشہ کی طرح بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اسی لئے پی ٹی آئی کی بچی کھچی مرکزی قیادت ٹاک شوز میں بیٹھ کر بڑی بڑی ڈینگیں مارتی رہی۔ آئین و قانون کی عملدراری پر تقریریں جھاڑتی رہی حالانکہ دوران حکومت ان سورماؤں کو نہ ہی آئین یاد رہتا ہے اور نہ ہی قانون کی پاسداری کا دورہ پڑتا ہے۔
ان کے کھوکھلے نعرے اور جھوٹے بیانیے اب عوام کی سمجھ میں آ چکے ہیں۔ پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس ایک ضمنی الیکشن سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں حکومتی امیدوار چوتھے نمبر پر آیا ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ عمران خان کی بجائے عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے۔ غیر ضروری بیانیے، کھوکھلے نعرے اور جھوٹے دعوے ایک بار کامیابی دلا سکتے ہیں اس سے پائیدار کامیابی ممکن نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو باجوڑ کے ضمنی انتخاب میں حکومتی امیدوار کو عبرتناک شکست سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔
اس کامیابی سے اے این پی کے کارکنوں میں بھی جان پڑ چکی ہے۔ ان کے راہنماؤں کو پی ٹی آئی قیادت سے سبق سیکھ کر لایعنی بیانات کی بجائے عوامی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ غیر ضروری بیانیے اور سوشل میڈیا ٹرینڈز پائیدار نہیں ہوتے۔ عوام اب کھوٹے اور کھرے میں تمیز کے قابل ہو چکے ہیں۔ اے این پی اس صوبے کی ایک بڑی پارٹی ہے۔ اسے اپنی صفوں کو از سر نو ترتیب دینے، اچھی شہرت کے حامل امیدوار سامنے لانے، مولانا فضل الرحمان اور تحریک انصاف کی پیروی میں ریاست مخالف بیانیوں سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔ دانشمندانہ طرز عمل اپنانے سے پارٹی اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔
ہاڑ کے حبس زدہ موسم میں باجوڑ ضمنی انتخاب کا نتیجہ اے این پی کے لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔