خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ
وصال محمد خان
خیبرپختونخوامیں عاشورۂ محرم بخیریت گزرجانے پرعوام، حکومت اورسیکیورٹی فورسزنے اطمینان کاسانس لیا۔ محرم الحرام کے ان ایام میں ہر سال یہ دھڑکالگارہتاہے کہ شرپسندعناصراپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہ ہوں۔ اس مرتبہ عاشورہ کے موقع پر 14اضلاع میں 7054 مجالس منعقدہوئیں، جلوسوں کی کل تعداد858رہی جس کی سیکیورٹی کیلئے پولیس، ایف سی کے خصوصی دستوں، پاک فوج اوردیگر سول محکموں کے 40ہزاراہلکاروں نے خدمات انجام دیں۔ جلوسوں کے تمام راستوں کی سی سی ٹی وی اورڈرون کیمروں سے مانیٹرنگ بھی کی گئی سیکیورٹی کی اس مربوط حکمت عملی سے محرم کے دوران فرقہ واریت یادہشت گردی کاکوئی ناخوشگوارواقعہ رونمانہ ہوا۔ مگراس دوران بنوں چھاؤنی اورڈی آئی خان میں رورل ہیلتھ سینٹرپردہشت گردحملے میں 10فوجی جوان اور5شہری شہیدجبکہ جوابی کارروائیوں میں13 دہشت گردجہنم واصل ہوگئے۔
15جولائی کوعلی الصبح 10دہشت گردوں کے ایک گروہ نے بنوں چھاؤنی میں داخل ہونیکی کوشش کی جسے سیککیورٹی فورسزنے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ناکام بنادیا۔ دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرتے ہوئے بارودسے بھری گاڑی چھاؤ نی کی دیوارسے ٹکرادی جس سے دیوارکاایک حصہ منہدم ہوا اورملحقہ انفراسٹرکچرکونقصان پہنچا۔ پاک فوج کے جری جوانوں نے مؤثرانداز میں دہشت گردوں کامقابلہ کیااورتمام دس دہشت گردوں کوجہنم واصل کیاواقعے میں پاک فوج کے8سپوتوں نے خودکومادروطن پرقربان کیاجنہیں فوجی اعزازکیساتھ سپردخاک کیاگیا۔ آئی ایس پی آرکے مطابق دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائی افغانستان سے آپریٹ ہونے والے حافظ گل بہادر نامی دہشت گردتنظیم نے کی ہے۔
دوسراواقعہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کڑی شموزئی میں پیش آیاجہاں 15اور16جولائی کی درمیانی شب دہشت گردوں نے رورل ہیلتھ سینٹرپرحملہ کیاحملے میں دولیڈی ہیلتھ وزیٹرز گلشن بی بی اورسفینہ سحر اپنے کمسن بچوں چارسالہ بیٹے اورتین سالہ بیٹی سمیت ماری گئیں ہیلتھ سینٹرکاچوکیداراصغربھی نشانہ بنا۔ پاک فوج نے کوئیک رسپانس کے تحت جوابی حملے میں تین دہشت گردماردئے جبکہ دوفوجی جوان شہیدہوگئے۔
دہشتگردی کے پے درپے واقعات سے صوبے میں تشویش کی لہرکا دوڑجاناقدرتی ہے۔ دونوں واقعات قابل مذمت ہیں شدت پسندقوتیں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے خواتین اورمعصوم بچوں کوبھی نشانہ بنارہی ہیں۔ شدت پسندوں کی سرکوبی کیلئے پاک فوج اپنابھرپورکرداراداکررہی ہے مگراس سلسلے میں سیاسی قوتیں اپنی ذمہ داریاں نبھا نے میں ناکام نظرآرہی ہیں۔ صوبائی سطح پرسرگرم اورمتحرک سیاسی جماعتیں جے یوآئی، اے این پی، جماعت اسلامی اورقومی وطن پارٹی آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتی نظرآرہی ہیں مذکورہ جماعتوں سمیت پی ٹی آئی نے سوشل میڈیاپربھی عزم استحکام کے خلاف محاذگرم کررکھاہے۔ صوبائی حکومت تواپنی ذمہ داریوں سے عدم آگاہی کے سبب برالذمہ ہے مگروفاقی حکومت کوعزم استحکام کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے گفت وشنیدکرنیکی ضرورت ہے۔
یہ جماعتیں جوبے خبری میں یاکسی پروپیگنڈے سے متاثرہوکرعزم استحکام کی مخالفت پرکمربستہ نظرآرہی ہیں انہیں اعتمادمیں لیناچنداں مشکل نہیں کیونکہ یہ جماعتیں بھی دہشت گردی سے متاثرہیں اورخونریزی کی روک تھام سبکی مشترکہ خواہش ہے مگراسکے باوجودیاتوسیاست چمکانے یاپھراپنی اناکے ہاتھوں مجبور ہوکراسکی مخالفت کر رہی ہیں۔ دہشت گردی کاحل توبہرصورت آپریشن میں ہی ہے کیونکہ دہشت گردوں کی ہٹ دھرمی کے سبب ہونے والے بیشترمذاکرا ت اورمعاہدے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں اوریہ بات تمام سیاسی جماعتیں بخوبی جانتی ہیں۔ سیاسی قوتوں اورسیکیورٹی اداروں کودہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مربوظ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک وقوم کواس لعنت سے نجات ملے۔
وفاقی وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑکی جانب سے پی ٹی آئی پرپابندیعائدکرنے کاعندیہ دیاگیا۔ صوبے سے تعلق رکھنے والی قابل ذکرسیاسی جماعتوں اے این پی اورقومی وطن پارٹی نے اسکی مخالفت کردی ہے۔ دونوں جماعتوں نے ایسے کسی مجوزہ اقدام کوغیرجمہوری اورغیرآئینی قرار دیاہے۔ آفتاب شیرپاؤ کااس حوالے سے کہناتھاکہ ملک نازک حالات سے گزررہاہے معاشی اوراقتصادی مسائل سمیت امن وامان کی بدترین صورتحال کاسامنا ہے۔ ان حالات میں ایسے فیصلوں سے افراتفری اورانتشارپھیلنے کاخدشہ ہے جوملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ فیصلے جذبات کی بجائے سوچ سمجھ کرکئے جائیں قومی سلامتی سیاست پرمقدم ہونی چاہئے۔
اے این پی کے مرکزی ترجمان احسان اللہ خان کا کہناتھاکہ پی ٹی آئی پرپابندی کافیصلہ غیردانشمندانہ ہوگاسیاسی جماعتوں کاراستہ پابندیوں اوررکاؤٹوں سے بندنہیں کیاجاسکتا۔ پی ٹی آئی سے اختلاف اپنی جگہ مگرہماری جماعت کسی سیاسی پارٹی پرپابندی کے خلاف ہے۔ یادرہے ان دونوں جماعتوں کی قیادت پرپی ٹی آئی راہنماؤں کی جانب سے رقیق حملے کئے جاتے رہے اورانہیں تضحیک آمیزالقابات سے نوازاجاتارہامگردونوں جماعتوں نے اصولی مؤقف اپناکرپی ٹی آئی کواخلاقی شکست دی ہے۔
حکومت نے سرکاری سکولوں میں بچوں کوسکول اوقات میں‘‘کھاناپروگرام’’ شروع کرنے کافیصلہ کیاہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورکامجوزہ پروگرام کے حوالے سے کہناتھا کہ بچوں کومعیاری کھانافراہم کیاجائیگاجس سے سرکاری سکولوں میں انرولمنٹ بڑھے گی۔ پروگرام کے تحت ابتدائی طورپرایبٹ آباداورسوات میں 70ہزاربچوں کومفت اورمعیاری کھانافراہم کیاجائیگاجس پرسالانہ 50کروڑروپے کی رقم خرچ ہوگی۔ منصوبہ سوشل میڈیاپرتنقیدکی زدمیں ہے جہاں اسے کرپشن کی نئی راہیں کھولنے کے مترادف قراردیاجارہاہے۔ ناقدین کاکہناہے کہ حالیہ بجٹ میں صوبائی حکومت نے اساتذہ کی تنخواہوں میں دس فیصدکامعمولی اضافہ کیاہے جس کے خلاف احتجاج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ میٹرک تک بچوں کیلئے مفت کتب کی فراہمی کامنصوبہ کم وبیش بیس برس سے جاری تھاجو موجودہ حکومت میں مسائل کاشکارہے۔ اس مرتبہ بچوں کوپچاس فیصدتک کتابیں کم ملی ہیں۔ صوبے کے سنجیدہ وفہمیدہ حلقوں کاخیال ہے کہ سرکاری سکولوں کوان گنت مسائل درپیش ہیں جوحکومتی توجہ کے متقاضی ہیں حکومت کوسستی شہرت کے لئے خامیوں سے بھرپور منصوبوں کی بجائے اصل مسائل پرتوجہ دینی چاہئے۔