بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان دنیا میں دو ایسے ممالک رہے ہیں جہاں اب بھی پولیو کا مرض یا وائرس موجود ہے۔ بھارت ،صومالیہ اور نائیجیریا جیسے ممالک سے اس کے باوجود پولیو کا خاتمہ کیا جا چکا ہے کہ یہ یا تو بہت پسماندہ سمجھے جاتے ہیں یا ان کی آبادی زیادہ ہے۔
ایک اور المیہ یہ رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے جن علاقوں میں یہ وائرس موجود ہے وہ پشتون علاقے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات متعدد ہیں تاہم پولیو کے قطروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ ، طالبانائزیشن، پسماندگی، نکل مکانی کے اثرات، فوجی آپریشن اور حفظان صحت کی سہولیات کا فقدان وہ محرکات ہیں جن کے باعث ان علاقوں میں پولیو سمیت متعدد دوسرے امراض نہ صرف موجود ہیں بلکہ پاکستان کے اندر خیبرپختونخوا ہی وہ خطّہ ہے جہاں سب سے زیادہ کیسز موجود ہیں اور عالمی اداروں ،حکومتِ پاکستان کی مسلسل کوششوں کے باوجود اس صورتحال پر پوری طرح ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
اس سلسلے میں پشاور کے صحافیوں، لکھاریوں اور اینکرز کے لیے گزشتہ روز مینگورہ سوات میں ایمرجنسی آپریشن سینٹر خیبرپختونخوا کے زیر انتظام ایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہر ڈاکٹرز نے پولیو کے اثرات، اسباب اور حکومتی اقدامات پر صحافیوں کو بریفنگ دی جبکہ دوسروں کے علاوہ آپریشن سنٹر خیبرپختونخوا کے کوآرڈینیٹر عبدالباسط نے شرکت کر کے صحافیوں کی تجاویز کو نہ صرف بہت غور سے سنا بلکہ اس بات پر افسوس اور تشویش کا اظہار بھی کیا کہ صوبے میں پولیو کے کیسز کا دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا صوبے کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج اور عوام کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ماضی میں بعض واقعات نہیں ہوئے ہوتے اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی تو اب تک پاکستان کو فری پولیو ملک قرار دیا جا چکا ہوتا ، تاہم اب حکومت اور متعلقہ عالم اداروں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ 2021 تک اس مرض اور وائرس کا خاتمہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے تمام وسائل اور طریقے بروئے کار لا ئے جا رہے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ حالیہ مہینہ کے دوران کیسز کی تعداد میں کمی آئی ہوئی ہے اور خیبر پختونخوا کے کیسز میں بھی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ ان کے مطابق یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پولیو ویکسین کے خلاف مغربی ہتھکنڈے اور عوامی مخالفت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ اب کے بار مانیٹرنگ سسٹم کو مزید فعال بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور میڈیا کے مثبت کردار اور ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے منفی پروپیگنڈے پر مبنی بعض حلقوں کے رویّے میں مثبت تبدیلیاں واقع ہوگئیں ہیں۔
تربیتی ورکشاپ میں شریک ماہرین اور صحافیوں نے صورتحال بہتر بنانے کے لئے یونیسیف، ڈبلیو ایچ او ،محکمہ صحت اور ای پی آئی کے اعلیٰ حکام کی موجودگی میں بعض تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔ اس ضمن میں میڈیا کے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ سینئر صحافی محمد ریاض نے میڈیا کے کردار اور اثرات پر جامعہ پریزنٹیشن دی جبکہ دوسرے سینئر صحافی و شمیم شاہد، عارف یوسفزئی ،طارق آفاق ، علی اکبر شیبا حیدر، رفعت اللہ اورکزئی، غلام فاروق خان اور دیگر نے عالمی اداروں اور متعلقہ حکومتی محکموں کے اقدامات پر تفصیل کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور تجاویز دیں ۔
عبدالباسط اور دیگر حکام کے مطابق 2012 میں پورے پاکستان میں کیسز کی تعداد صرف آٹھ تک آ گئی تھی تاہم بعض واقعات ، بدامنی اور منفی پروپیگنڈے کے باعث بعد کے برسوں کے دوران کیس پھر سے بڑھنا شروع ہوگئے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی شرح کے لحاظ سے سرفہرست رہا حالانکہ پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کی آبادی بہت کم ہے۔ ان کے مطابق 2019 کے دوران بوجوہ پختونخوا میں کیسز کی تعداد بڑھ گئی تاہم رواں برس اپریل کے ماشوخیل واقعے کے باوجود صورتحال بہتر رہی اور انکاری والدین کی تعداد بھی کم ہوتی گئی۔ اس دوران پولیو ورکرز کو شدید دباؤ، مخالفت اور حملوں تک کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور کرونا بحران کے باوجود ویکسینیشن کی گئیں۔ کامیاب مہمات چلائی گئی جو کہ قابل تعریف عمل ہے تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کو ماضی میں صحت کے متعدد مسائل اور اثرات کا سامنا رہا جس نے دوسروں کے علاوہ خواتین اور نئی نسل کو بہت متاثر کیا تھا تاہم اب توقع پیدا ہوچلی ہے کہ پولیو سمیت کئی امراض پر قابو پایا جاسکے گا۔