افغان مہاجرین کی واپسی ، پاکستان کا موقف اور عالمی برادری کی لاتعلقی

افغان مہاجرین کی واپسی ، پاکستان کا موقف اور عالمی برادری کی لاتعلقی
عقیل یوسفزئی

پاکستان سال 1980 سے اب تک ( 2024 ) تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتا آرہا ہے اور افغانستان کے اس 20 سالہ نسبتاً بہتر دورانیہ میں بھی مہاجرین کی مہاجرت میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی جب امریکہ اور نیٹو ممالک کے قیام کے باعث نہ صرف یہ کہ سیکورٹی کے حالات کافی بہتر تھے بلکہ معاشی صورتحال بھی بہت بہتر تھی ۔ سال 1985 کے دوران پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 28 لاکھ اور 2005 میں یہ تعداد 24 لاکھ تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی رضاکارانہ واپسی کا عمل عملاً نہ ہونے کی برابر رہا۔

اس وقت جو ڈیٹا دستیاب ہے اس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8 لاکھ رجسٹرڈ یا کارڈ ہولڈر افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں جبکہ ساڑھے سات لاکھ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ درکار دستاویزات کے بغیر یعنی غیر قانونی طور پر یہاں قیام کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ( یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فیلیفو گرانڈی اپنی ٹیم کے ہمراہ جولائی 2024 کے دوسرے ھفتے کے دوران پاکستان کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے نہ صرف یہ کہ وزیراعظم شہباز شریف ، وزیر سیفران امیر مقام اور خیبرپختونخوا حکومت کے عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں بلکہ انہوں نے پشاور میں افغان مہاجرین کے ایک نمایندہ وفد سے بھی ملاقات کی ۔ ان کی درخواست کا احترام کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے بعض معاملات پر افغان مہاجرین کو جون 2025 تک بعض رعایتیں دینے کا اعلان کیا تاہم ان کو بتایا گیا کہ پاکستان بوجوہ مزید مہاجرین کی میزبانی کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے ان کو ہر صورت میں واپس بھیجا جائے گا۔

اس سے قبل جولائی 2023 کو اس وقت کی نگران حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی طور پر قیام پزیر مہاجرین کو واپس بھیجا جائے گا اور اس پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ یہ سلسلہ کبھی تیز تو کھبی آہستہ اب بھی جاری ہے اور ہر ھفتے سینکڑوں ، ہزاروں افراد طورخم ، چمن ، غلام خان اور انگور اڈہ کی کراسنگ پوائنٹس کے ذریعے افغانستان بھیجے جاتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے مختلف مقامات پر یو این ایچ سی آر اور حکومت پاکستان کی جانب سے سہولت کاری مراکز قائم کیے گئے ہیں ۔ یو این ایچ سی آر ہر فرد اور خاندان کو ابتدائی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے 300 سے 700 ڈالرز تک امداد بھی دے رہا ہوتا ہے۔
ان کی واپسی کی رفتار کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ 3 جولائی 2024 تک 637,427 افراد کو واپس بھیجا جاچکا ہے ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 21 جون سے 3 جولائی تک کے عرصے میں 432 خاندانوں پر مشتمل 16446 افغان باشندوں کو 496 گاڑیوں میں واپس بھیجا گیا۔

مختلف رپورٹس کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ جب سے ان کی بے دخلی کا فیصلہ کیا گیا ہے تب سے اب تک تقریباً 6 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے جن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ وہ ہیں جو کہ بعض درکار دستاویزات رکھنے کے باوجود رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کو بات بات پر طعنے دینے والی افغان عبوری حکومت اور بعض سیاسی حلقوں کی کارکردگی کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے واپس جانے والوں کی بحالی تو ایک طرف عارضی قیام کی سہولیات پر بھی کوئی توجہ نہیں دی ۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے علاوہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور متعدد قوم پرست لیڈروں نے بھی ریاست پاکستان کے اس فیصلے پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سخت مخالفت کی تاہم حکومت نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا کیونکہ ان مہاجرین میں سے بہت سوں کے بارے میں اس قسم کی اطلاعات موصول ہوئیں کہ وہ نہ صرف یہ کہ جرایم ، اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں بلکہ بے شمار نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچستان اور خیبرپختونخوا پر کرایے گئے حملوں میں بھی براہ راست حصہ لیا ۔ اس قسم کے ثبوت اور شواہد بھی سامنے آتے رہے کہ سینکڑوں افغان مہاجرین اور ٹی ٹی پی کے حامیوں نے 9 مئی کے واقعات اور حملوں میں بھی حصہ لیا ۔ یہ ڈیٹا بھی سامنے آیا کہ ہزاروں افغان مہاجرین نے نہ صرف یہ کہ رشوت دیکر پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کیے بلکہ انہوں نے غیر قانونی طور پر مختلف قسم کے کاروبار بھی شروع کیے جن پر وہ ٹیکس وغیرہ بھی نہیں دیتے تھے ۔ ایف آئی اے اور بعض حساس اداروں نے ایسے افراد کو سہولیات فراہم کرنے والے درجنوں سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں۔

پاکستان نے جہاں ایک طرف غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی بے دخلی یا واپسی کا عمل جاری رکھا وہاں اس نے مذکورہ فیصلے کے باوجود تقریباً ڈیڑھ لاکھ ان افغان باشندوں کو ریکارڈ تعداد اور وقت میں ویزے بھی جاری کیے جن کو طالبان حکومت کے قبضے کے بعد سیکورٹی چیلنجز کا سامنا تھا اور وہ پاکستان یا بعض دیگر ممالک میں منتقل ہونے کی کوشش کررہے تھے ۔ یوں دنیا بھر میں پاکستان وہ واحد ملک رہا جس نے کشیدہ تعلقات اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا کے باوجود اگست 2021 کو طالبان کی ٹیک اور کے بعد سب سے زیادہ ویزے جاری کیے۔

10 جولائی 2024 کو اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے ایک مانیٹرنگ رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت اور افغان طالبان کی جانب سے پاکستان پر حملے کرنے والی ٹی ٹی پی اپنے ہزاروں جنگجووں کے باعث تعداد اور صلاحیت کے تناظر میں افغانستان کی سرزمین پر سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کی صورت اختیار کر گئی ہے اور اسی پس منظر میں اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو بدترین حملوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ رپورٹ میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی جنگجووں کی تعداد ساڑھے 6 ہزار بتائی گئی ہے تاہم آزاد ذرائع یہ تعداد تقریباً 15 ہزار کی لگ بھگ بتاتے ہیں ۔ دوسری جانب پاکستان نے کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے کے اقدامات کے علاوہ لینڈ پورٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارے کے قیام اور فعالیت کی پلاننگ بھی شروع کی تاکہ اسمگلنگ اور دیگر سرگرمیوں کا راستہ روکا جائے ۔ 12 جولائی کو ایک اہم بریفننگ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے رواں سال ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 22 ہزار 714 انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے جس کے نتیجے میں تقریباً 900 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا اور ان میں درجنوں افغان بھی شامل ہیں۔
افغان مہاجرین کے خلاف سخت اقدامات کا سلسلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد میں پناہ دینے والے ایک اور پڑوسی ملک ایران نے بھی بے دخل کرنے کا سلسلہ تیز کردیا ۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے دوران ایران نے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو نہ صرف یہ کہ بے دخل کردیا بلکہ سینکڑوں کو مختلف کارروائیوں کے دوران زندگی تک سے محروم کردیا ۔ جولائی ہی کے مہینہ میں جرمنی نے بھی افغان تارکین وطن کی سکروٹنی کے عمل کے نتیجے میں انکشاف کیا کہ لاتعداد افغان مہاجرین نہ صرف یہ کہ جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں بلکہ وہ جرمنی میں شدت پسندی کو فروغ دینے کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔ کریسٹمر نے اعلان کیا کہ جرمنی سے ایسے تمام افغان مہاجرین کو بے دخل کیا جائے گا اور سکروٹنی ، مانیٹرنگ کے عمل کو مزید تیز اور سخت کیا جائے گا۔

اس تمام صورتحال کے تناظر میں بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے پرو مہاجرین پالیسی اور ہمدردی سے قطع نظر اس بات پر اکثر لوگوں کا اتفاق ہے کہ پاکستان کو ان مہاجرین کے ساتھ اس کے باوجود سخت رویہ اختیار کرنا پڑے گا کہ افغانستان کی سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں اکثر کو بلاشبہ واپسی کی صورت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس ردعمل کو سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کے ذریعے افغانستان کی عبوری حکومت کے علاوہ پاکستان مخالف حلقوں کے نفرت آمیز پروپیگنڈے کے اثرات کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے ۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ افغان مہاجرین کے متعلقہ معاملات سے بعض متعلقہ اہم ممالک اور عالمی اداروں نے بھی لاتعلقی اور بیزاری پر مبنی پالیسی اختیار کرلی ہے اور اس ضمن میں پہلے کی طرح پاکستان کی عملاً کوئی مدد نہیں کی جارہی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket