سندھ دھرتی – سب کی دھرتی

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے صوبہ سندھ کو ملک کے باقی صوبوں کے مقابلے میں ہر دور میں کئی حوالوں سے نمایاں انفرادیت اور اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں نہ صرف یہ کہ مختلف تہذیبوں ، مذاہب اور قومیتوں کے لوگ موجود ہیں بلکہ کراچی کو فائنانشل حب کے علاوہ فنی کراچی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس شہر نے ہر علاقے اور قومیت کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوا ہے۔ دوسری طرف سندھ کا اس کی سیاسی قیادت کے مضبوط پس منظر کے باعث بھی اہم مقام رہا ہے جس میں بھٹو خاندان کا فیڈریشن اور قومی یکجہتی کے حوالے سے کردار سب کے سامنے رہا تو وہاں سندھی قوم پرست، اُردو بولنے والوں اور دیگر پارٹیوں کی موجودگی، فعالیت اور کارکردگی بھی ہر دور میں توجہ طلب رہی ہیں۔

karachi
اسی پس منظر کے باعث سندھ کے جغرافیائی، سیاسی، لسانی، ثقافتی اور معاشی اہمیت اسے دوسرے صوبوں سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ سندھ نے بہت تکالیف اور آزمائشیں دیکھی ہیں مگر اس کی قیادت اور عوام نے حوصلہ کبھی نہیں ہارا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں کے شہری نہ صرف بہت باشعور ہیں اور مطمئن بھی مگر ساتھ میں وہ ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے پر عزم بھی ہیں۔
سندھ پیپلز پارٹی کا ہوم گراؤنڈ اور اس کی اعلی قیادت کا مرکز ہے تاہم اس کے مرکزی شہروں کے حکومتی نظام میں ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور بعض دوسری پارٹیاں بھی حصہ دار رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں جب پیپلز پارٹی کے پاس کراچی کا نظام چلانے کا اختیار آگیا تو شہریوں نے شہر کی تعمیر نو، بحالی اور ترقی کی نئی دلچسپی اور رفتار دیکھی اور غیر معمولی تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملتی رہی ہیں۔

Sindh
اندرون سندھ کے بارے میں عام تاثر یہ رہا ہے کہ وہاں کا معیار زندگی ابتر اور گورننس کا نظام کمزور اور سست ہے تاہم زمینی حقائق اس تاثر سے کافی مختلف ہیں اور اندرون سندھ بشمول تھرپارکر باقی صوبوں کے دیہاتی علاقوں کے مقابلے میں مواصلات، صحت، تعلیم، علاقائی ترقی کے شعبوں میں بہت بہتر اور آگے ہے۔ فرق یہ ہے کہ صوبائی حکومت یا عوامی نمائندے ذاتی اور سیاسی پبلسٹی پر دوسروں کی طرح توجہ نہیں دیتے اور ان کو ایک گلہ یہ ہے کہ قومی میڈیا بوجوہ منفی واقعات کو تو بہت زیادہ اُچھالتا ہے مگر اچھے اقدامات، پالیسیوں اور منصوبوں کو یکسر نظر انداز کرتا آرہا ہے۔
اس ضمن میں مشہور زمانہ تھرپارکر کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں نہ صرف یہ کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کام تیزی سے جاری ہے بلکہ بعض پراجیکٹس اس نوعیت کی ہیں جن کی تکمیل سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کو توانائی کے شعبے میں ناقابل یقین فائدہ ہوگا۔

tharparkar coal mine
مثال کے طور پر تھرپارکر میں موجود صوبائی حکومت نے بعض دوسرے عالمی پارٹنرز یا اداروں کے تعاون سے کوئلے کے دو تین ذخائر پر تقریباً پانچ ارب ڈالرز کی لاگت سے جو منصوبے شروع کئے ہیں ان میں ایک منصوبے نے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے جبکہ دوسرا تیزی کے ساتھ زیر تکمیل ہے۔ ماہرین کے مطابق صرف ان دو تین پراجیکٹس سے پاکستان میں 2025 اور 2030 تک جو سستی بجلی پیدا ہوگی اس سے ملک کے کم از کم 200 برسوں کی ضرورتیں پوری ہونگی۔ ان پراجیکٹس میں اس وقت 7 ہزار سے زائد لوگ ملازمت کر رہے ہیں جن میں 80 فیصد کا تعلق مقامی آبادی سے ہے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ایک پراجیکٹ مقامی آبادی کو مفت بجلی دینے کے علاوہ 600 میگاواٹ کی بجلی نیشنل گریڈ کو فراہم کر رہا ہے جبکہ دوسرے کی صلاحیت پانچ ہزار میگاواٹ سے زائد ہے۔
ضلع میں مقبول عام خبروں اور تجزیوں کے برعکس صحت اور تعلیم کے متعدد سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جبکہ سڑکوں کو ملک بھر میں مثالی قرار دیا جاسکتا ہے جس کو نہ صرف مکمل تحفظ، آزادی اور ترقی کے مواقع حاصل ہیں بلکہ وہ اس علاقے کے علاوہ پورے سندھ کے سٹیک ہولڈرز کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔
سندھ کے ہر شہر میں صحت کی سہولیات بہت بہتر ہے تاہم سکھر، خیرپور اور کراچی میں متعدد سرکاری اسپتال اپنی سہولیات، مشینری اور میڈیکل سٹاف کے باعث نہ صرف ملک بلکہ جنوبی ایشیا کی انڈیکس میں سب سے نمایاں اور بہتر ہیں۔ خیر پور کے علاقے گمبٹ میں ہسپتالوں کا ایک ایسا حب موجود ہے جہاں مہنگی ترین امراض کا جدید سہولیات کے ساتھ علاقائی امتیاز کے بغیر مفت علاج کیا جاتا ہے۔ سکھر کے اسپتالوں سے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے مریضوں کی بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے تو دوسری طرف یہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں دوسرے صوبوں کے طلباء فائدہ اٹھائے دیکھے جا سکتے ہیں۔سکھر میں عالمی معیار کی یونیورسٹیاں موجود ہے جبکہ اس محدود شہر میں اس وقت تین مزید یونیورسٹیاں زیر تکمیل ہے۔
اس سسٹم کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ متعدد بڑے اسپتالوں اور یونیورسٹیوں نے صوبے میں ایک چین بنایا ہے جس کے ذریعے ایک مربوط نظام کے تحت ان تمام علاقوں کو کنٹیکٹ کیا جاتا ہے اور اداروں کی دوسری شاخیں مقامی آبادی کو درکار سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔
صوبے کے عوامی نمائندے دوسروں کے برعکس اپنے ووٹرز اور شہریوں کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اور پارٹی قائدین ان کی کارکردگی کی پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔
سندھ چونکہ لمبے عرصے تک سیاسی اور معاشی کشیدگی کی لپیٹ میں رہا ہے اس لیے اس کے بعض مسائل جہاں بڑے چیلنجز کی شکل اختیار کر گئے ہیں وہاں شکایات اور توقعات کی شرح بھی زیادہ ہے اور حکمرانوں کو تنقید کا بھی سامنا ہے تاہم مجموعی صورتحال، کارکردگی اور اثرات مقبول عام تبصروں کے برعکس کافی بہتر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاق اس صوبے کی ترقی میں بھرپور دلچسپی لے اور دوسرے صوبے اس کی بعض پالیسیوں، منصوبوں سے سیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ سندھ سب کا ہے اور اس کے ذریعے قومی یکجہتی کو فروغ بھی دیا جاسکتا ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket