مکالمہ جاری رہنا چاہیے

صحافیوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی اجتماع کا مقصد بظاہر تو یہ تھا کہ ایک پر فضا مقام پر جمع ہوکر ایک دوسرے سے ملاقات کی جائے اور کرونا کے باعث دوستوں کے درمیان جو فاصلے پیدا ہوگئے تھے ان کو کم کرکے فرصت کے ماحول میں گپ شپ لگائی جائے مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اکٹھے ہو اور سیاست ،صحافت اور خطے کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال بلکہ ٹکراؤ خیال نہ ہو۔
لہذا دوست اکٹھے ہو گئے تو ان موضوعات پر شام کے وقت جو گفتگو شروع ہو ئی وہ رات ایک بجے تک جاری رہی۔قوم پرست دوستوں نے تاریخی واقعات کے تناظر میں شکوہ کیا کہ پاکستان میں مخصوص طبقے کے علاوہ بڑے صوبے یعنی پنجاب کو بنیادی اہمیت اور طاقت حاصل ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دوسری قومیتوں میں احساس محرومی کا عنصر بڑھتا رہا اور پاکستان ایک مؤثر اور قابل قبول وفاق نہ بن سکا۔ اس شکوے اور دلیل کی دوسرے فریق نے کوئی مخالفت نہیں کی تاہم اس میں یہ اضافہ ضرور کیا کہ پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق کی کوشش کی جائے اور مزاحمت سے گریز کا راستہ اپنایا جائے۔ اس ضمن میں کہا گیا کہ پشتونوں اور بلوچوں نے 70 کی دہائی میں صوبائی حقوق کے لیے مشترکہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تاہم یہ ایک دوسرے سے اس لیے الگ ہوئے کہ پشتون قیادت نے بلوچوں کے برعکس مزاحمت کی بجائے مرحلہ وار سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کا راستہ اپنایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون بلوچوں کے مقابلے میں کافی آگے چلے گئے اور آج عطاءاللہ مینگل جیسا لیڈر عمران خان کا اتحادی ہے۔
فریق اول کی دلیل رہی کہ پشتونوں کے لئے مزاحمتی سیاست ایک بہتر آپشن ہے تاہم دوسرے فریق کا موقف رہا کہ زمینی حقائق کے تناظر میں چونکہ پشتون اس ملک کا دوسرا بڑا حصہ دار ہے اور مختلف اہم شہروں اور شعبوں پر ان کا غلبہ ہے اس لیے وہ کسی مزاحمتی جدوجہد کا حصہ نہیں بنیں گے اس لئے اس سے گریز کیا جائے۔
افغانستان کی صورتحال پر شرکاء نے کھل کر اظہار کیا جب کہ قوم پرست پارٹیوں کے کردار ترجیحات اور طریقہ کار پر بھی گفتگو کی گئی متضاد الخیال آراء کے باوجود ایک دوسرے کو تحمل اور غور سے سنا گیا اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام بھی دیکھنے کو ملا۔ یہ طویل مکالمہ اس نکتے کے گرد گھومتا رہا کہ ملک خصوصا ًقومیتوں، اداروں اور صوبوں کے اختیارات اور حقوق کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں متعدد تجاویز کا تبادلہ ہوا اور تاریخی حوالوں اور واقعات کی بنیاد پر مستقبل کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ شکایات کے باوجود جو نقطہ بہت اچھا لگا وہ یہ تھا کہ پاکستان کے موجودہ مسائل اور مستقبل کے چیلنجز کے لیے سیاسی قوتوں اور سوسائٹی سمیت بعض اہم اداروں کے حدود، اختیارات کے اَزسر نو تعین پر سب کا اتفاق تھا اور اس بات پر بھی سب متفق تھے کہ اداروں کے علاوہ سیاسی قوتوں کو بھی اپنے طرز عمل اور طریقہ کارپر غور کرنا ہوگا ۔
سیاست اور ریاست کے علاوہ صحافت پر بھی ناقدانہ بحث ہوئی اور اس اہم شعبے کی غیر ذمہ داری اور جانبداری کو سب کے لیے خطرناک قرار دیا گیا۔ اس طویل دوطرفہ مکالمہ کے دوران کہیں بھی تلخی،کشیدگی کا ماحول نہیں بنا باوجود اس کے کہ اِس میں مختلف نظریات اور انداز فکر کے دوست شامل تھے اور بعض مسائل پر شرکاء ایک دوسرے کے بالکل مخالف کیمپ میں بیٹھے نظر آئے۔ یہ ایک خوش آئند رویہ تھا جس کا سب نے مشاہدہ کیا۔
اس بحث سے جو نکات سامنے آئے ان میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ قومیتوں اور صوبوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تعلقات ہونے چاہیے۔ دوسرا یہ کہ سیاسی ،جمہوری اور پارلیمانی نظام کا تسلسل بعض ضروری اور عصری اصلاحات کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔تیسرا یہ کہ نظام اور اداروں میں توازن لانا چاہئے اور سب سے آخر میں یہ کہ مکالمہ ہر حالت میں جاری رہنا چاہیے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket