لاپتہ افراد اور بارودی سرنگوں کا معاملہ

لاپتہ افراد کا مسئلہ نہ صرف پاکستان میں لمبے عرصے سے زیر بحث ہے بلکہ امریکہ چین اور روس جیسے ممالک میں بھی مختلف ادوار میں یہ مسئلہ زیربحث رہا ہے۔ ان تین ممالک کے بارے میں سال 2017 کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں جہاں تشویش کا اظہار کیا گیا وہاں یہ کہا گیا کہ اکثر افراد کے لاپتا ہونے میں ریاستی ادارے ملوث پائے جاتے ہیں اور یہ ادارے اپنے یا ریاست کے مخالفین کو مختلف طریقوں سے منظر عام سے غائب کر دیتے ہیں۔
تقریباً ہر ملک میں یہ مسئلہ موجود ہے جس کے اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں اس مسئلے یا شکایت کا آغاز بھٹو حکومت کے دوران ہوا بھٹو صاحب اپنی ایک نجی سکیورٹی ایجنسی کے علاوہ بعض ریاستی اداروں کے ذریعے مخالفین کو بوجوہ اٹھوایا کرتے تھے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتے تھے یا انہیں مستقل طور پر غائب ہی کرا دیا کرتے تھے۔
سن 2001 کے بعد مختلف حلقے الزام لگاتے رہے کہ پاکستان کے بعض ادارے ایسا کرتے آرہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس مسئلے کو ملکی اور عالمی سطح پر ریاست کے خلاف بطور ایک ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں اگر دو تین عوامل کا جائزہ لیا جائے تو خلاصے کے طور پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس مسئلے پر کئی غلط فہمیاں بھی موجود ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان، عراق، شام اور دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مختلف مراحل اور مسائل سے گزرنا پڑا مختلف آپریشنز کے دوران سینکڑوں افراد کو تحویل میں لیا جاتا رہا۔ ان میں سے ہارڈکور افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا تاکہ وہ بعض عدالتی اور تحقیقاتی نقائص یا کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پھر سے انتہاپسندی کا حصہ نہ بنیں کیونکہ سینکڑوں ایسے افراد کو عدالتوں سے رہائی ملتی رہی۔ ایسے افراد کو بحالی سے متعلق بعض حراستی مراکز میں بھی رکھا گیا ۔ایسے میں بعض گروپوں اور متاثرین کے رشتہ داروں نے اس مسئلہ کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر احتجاج کیا اور الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔
دہشت گرد تنظیموں کی طرح بعض علیحدگی پسند گروپوں کے سینکڑوں افراد بوجوہ رشتہ داروں کو بتائے بغیر ان ممالک جاتے رہے ہیں جہاں سے ان کو سیاسی اور تربیتی سہولتیں ملتی رہیں۔ ان کی گمشدگی کو بھی ریاستی اداروں کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان سے طالبان وغیرہ کے علاوہ قوم پرست مزاحمت کاروں کی بڑی تعداد افغانستان جاتی رہی، سینکڑوں وہاں مارے گئے تو اتنی ہی تعداد میں نیٹو یا افغان فورسز کے خلاف لڑتے رہے۔ ایسی صورت میں ان کے رشتہ دار اور حامی اُن کی گمشدگی کو ریاستی اداروں کی کارروائیوں کا نتیجہ قرار دیتے رہے اور یہ رویہ اب بھی موجود ہے۔ ریاستی ادارے مسلسل بتاتے رہے کہ ایسے لاپتہ افراد کو ان کے ہاں ڈھونڈنے کی بجائے بیرون ملک یا اندرون ملک ٹھکانوں میں ڈھونڈا جائے مگر اس پر کسی نے بھی عمل نہیں کیا۔
یہ درست ہے کہ متعدد افراد شاید فورسز کا نشانہ بنے ہوں یا بوجوہ ان کے پاس ہوں تاہم یہ کہنا کہ ہزاروں افراد کو بلاوجہ مارا جا چکا ہوگا یا زیر حراست رکھا گیا ہوگا ممکن یا درست نہیں ہے۔ بعض گوریلا تنظیمیں بوجوہ اپنے لوگوں کو بڑی تعداد میں خود بھی مارتی ہیں اس لیے یہ بھی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔
ایسی ہی صورتحال بارودی سرنگوں کے معاملے پر پاکستان کے اداروں کو درپیش ہے۔ سال 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2004 کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2018 تک فورسز کے تقریباً 700 جوان بارودی سرنگوں کا نشانہ بنے تھے جبکہ سویلین کی تعداد تقریباً 900 تھی ۔ تاہم سیاسی مخالفت میں ذکر صرف سویلین کا کیا گیا حال ہی میں وزیرستان میں تین مختلف واقعات میں ایک لانس نائیک اور تین بچوں سمیت 9 افراد شہید جبکہ سات زخمی ہوگئے تو پھر سے اسمبلی اور میڈیا سمیت مظاہروں میں بھی شور اٹھا کہ اس کی ذمہ دار حکومت یا متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے حالانکہ تین بڑے فوجی آپریشنز کے بعد طریقہ کار کے مطابق دو طرفہ طور پر بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں اور ہزاروں بارودی سرنگیں صاف کی گئیں مگر ایک طرف الزامات اس کے باوجود جاری رہے کہ کسی بھی شورش زدہ علاقے کو ایسے مواد سے صاف کرنے میں برسوں لگتے ہیں جس کی مثال ہم افغانستان، عراق اور دیگر ممالک میں جنگوں کے کئی برس گزرنے کے بعد بھی بڑے واقعات کی شکل میں آئے روز دیکھ رہے ہیں۔
تکنیکی طور پر بارودی سرنگوں کو ڈھونڈنا اور صاف کروانا بہت مشکل اور لمبا عمل سمجھا جاتا ہے مگر عوام یا ناقدین ان مشکلات کو یا تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یا صبر اور تعاون کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
یہ کافی خوش آئند ہے کہ 2021 کے اوائل میں متعلقہ اداروں نے ایسے بے شمار افراد کی فہرستیں اور تفصیلات پبلک کیں جو کہ ان کے پاس تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ تاہم اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ تلخ حقائق الزامات اور شکایات کا سامنا اور ازالہ کرتے ہوئے ان دو معاملات پر بھرپور توجہ دی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے تاکہ ممکنہ حد تک شہریوں اور متاثرین کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket