پختونخوا کے آبی اور قدرتی وسائل اور بعض شکایات

کئی دہائیوں سے پاکستان میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ چلتا آرہا ہے اور ایک عام تاثر یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں خصوصاً خیبرپختونخواہ کے ساتھ اس مد میں زیادتی ہو رہی ہے اگرچہ 1973 کے آئین کے بعد مختلف اوقات میں ان شکایات کا ازالہ کیا جاتا رہا ہے تاہم یہ مسئلہ اب بھی مزید اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں صوبہ کی مختلف سیاسی جماعتیں اور حکومتیں احتجاج کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی کئی بار مرکز کے ساتھ بعض اقتصادی معاملات اٹھاتی آئی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی شکایت بجلی کے خالص منافع، اس کے واجبات اور منافع میں مرحلہ وار اضافے سے متعلق ہے۔ خیبرپختونخوا سرکاری ڈیٹا کے مطابق چار بڑے ڈیمز اور تین ہائیڈل پاور اسٹیشن سے تقریباًچھ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اس صوبے کی بجلی کی اپنی ضرورت تقریباً سترہ سو سے دو ہزار میگاواٹ ہے تاہم نیشنل گریڈ سٹیشن سے اس کو گزشتہ کئی برسوں سے گرمی کے موسم میں نو سو سے تین سو میگاواٹ کی بجلی فراہم کی جارہی ہے جو کہ واقعتا زیادتی ہے۔ اگر اس کو اپنی پیدا کردہ بجلی سے دو ہزار میگاواٹ دی جائے تو چار ہزار میگاواٹ پھر بھی دوسرے صوبوں کو جاتی ہے دوسری شکایت یہ کی جا رہی ہے کہ پختون خواہ کے ان پاوراسٹیشن میں پَر یونٹ بجلی پر تین سے چار روپے کی لاگت آتی ہے مگر اس صوبے کے صارفین کو یہی بجلی کراچی، فیصل آباد اور لاہور کی طرح 18 روپے فی یونٹ فروخت کی جارہی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سی پیک میں اب صوبہ کے توانائی کے متعدد منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔

ایک اور شکایت یہ ہے کہ مرکز اور واپڈا صوبے کو بجلی کی خالص مد میں ملنے والی آمدنی کے بقایاجات میں مسلسل تاخیر سے کام لیتے آرہے ہیں اور عملی طور پر 1992 کے اے جی این قاضی فارمولا پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ حکومت کے اپنے حکام اور ماہرین کے مطابق اس وقت یعنی 2021 کے وسط میں مرکز کے ذمہ صوبے کے چھ سو پچاس ارب روپے واجب الادا ہیں جو کہ بہت بڑی رقم ہے جبکہ سالانہ قسطیں بھی طریقہ کار کے مطابق بروقت ادا نہیں کی جاتیں۔ ذرائع کے مطابق وفاق میں گزشتہ دو برسوں کے دوران اس مد میں صوبے کو محض 25 ارب روپے دیے ہیں۔ قسطوں کی ادائیگی کا معاملہ جنرل مشرف اورایم ایم اے، اے این پی، اور پی پی پی کے ادوار حکومت میں نہ صرف بہتر چلتا رہا بلکہ منافع میں اضافہ بھی ان ادوار میں دیکھنے کو ملا۔ پرویزخٹک کے دور حکومت میں 2016 کے دوران اس وقت کی نواز شریف حکومت سے ادائیگی کے معاملے پر ایک عبوری معاہدہ ہوا جس کی رُو سے 2017 سے 2020 تک نہ صرف ادائیگیوں کا طریقہ کار وضع کیا گیا بلکہ اضافے پر بھی اتفاق ہوا۔ تاہم تحریک انصاف کی اپنی وفاقی حکومت بعد میں اس فارمولے پر خود بھی عمل نہ کر سکی جس پر کئی بار صوبائی حکومت نے تحریری احتجاج بھی کیا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب صوبے کے بقایا جات 650 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ صوبے کے ساتھ جہاں بجلی کی فراہمی اور ادائیگی کے معاملات پر زیادتی کی جارہی ہے وہاں سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ بھی یہاں کی جاتی رہی۔ اس ضمن میں واپڈا اور پیسکو کا موقف ہے کہ جن علاقوں میں صارفین بل ادا نہیں کرتے یا بجلی چوری میں ملوث ہیں ان علاقوں میں زیادہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے حالانکہ مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ جن علاقوں میں 80 سے 90 فیصد بل ادا کئے جاتے ہیں وہاں بھی صارف پر کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ مسلط کی جاتی ہے اس لئے ایک اور زیادتی کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے۔ لیسکو کی سال 2020 اور 2019 کی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صرف لاہور شہر کے کارخانہ داروں اور صارفین کے ذمے ارب روپے واجب الادا ہیں۔ تاہم اتنی بڑی رقم کی ریکوری کے لیے ایسا کوئی فارمولا نہیں اپنایا گیا جیسا کہ پشاور اور صوبہ کے دوسرے شہروں میں اپنایا گیا ہے۔

یہی سلوک صوبے کے ساتھ گیس کے معاملے میں بھی کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق پختونخوا میں 560 ملین کیوبک فٹ گیس پیدا ہورہی ہے۔ اس میں 200 ملین کیوبک فٹ صوبہ استعمال کرتا ہے جبکہ 350 ملین دوسرے صوبوں کو فراہم کی جارہی ہے۔ شکایت یہ ہے کہ جو تین سو پچاس ملین کیوبک فٹ گیس دوسرے صوبوں میں استعمال ہورہی ہے اس کی قیمت ایل این جی کی قیمتوں کے مقابلے میں 300 فیصد کم ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس صوبے کی محض دو سے چار فیصد انڈسٹری کو یہ گیس فراہم کی جارہی ہے جبکہ ساٹھ فیصد گیس پنجاب کی انڈسٹریز میں استعمال ہو رہی ہے۔ اسی مسئلے پر صوبائی حکومت کے ایک مشیر توانائی حمایت اللہ خان نے احتجاج کرتے ہوئے چند ہفتے قبل استعفیٰ دے دیا اور وفاق پر زیادتی کا الزام لگایا۔

صوبے کو ایسی ہی صورتحال کا تیل کے معاملے پر بھی سامنا ہے۔ اس وقت صوبے کے چار مختلف علاقوں سے بھاری مقدار میں تیل نکالا جا رہا ہے جبکہ ایک امریکی سروے میں سال 2018 کے دوران کہا گیا کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں میں تیل اور گیس کے ذخائر ایران کے ذخائر کے برابر ہیں اور اگر ان کو نہیں نکالا گیا تو ان علاقوں میں زلزلہ آ جائے گا تاہم اس قدرتی دولت میں صوبے کو کیا مل رہا ہے اس کی تو تفصیلات ہی فراہم نہیں کی جارہیں اور جن ا داروں کو تیل اور گیس کے لیے قائم کیا گیا تھا ان کو بھی عملا” بند یا ختم کیا گیا ہے۔

ایسی شکایات معدنیات کے بارے میں بھی سامنے آرہی ہیں۔ ایک نامور بزنس مین اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن سراج الدین خان کے مطابق صوبے میں قیمتی پتھروں کی 120 اقسام پائی جاتی ہیں جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں۔ تاہم حکومت کے پاس اس کی ڈسکوری، فنشنگ اور مارکیٹنگ کے لئے سرے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے ورنہ ان پتھروں اور معدنیات سے ان کے مطابق اربوں نہیں بلکہ کھربوں کی آمدن متوقع ہے۔ آج کل سندھ پنجاب اور وفاقی حکومت کے درمیان پانی کی تقسیم اور فراہمی کے معاملے پر کشیدگی چل رہی ہے تاہم اس پر کسی نے تحقیق یا بات نہیں کی کہ جس پانی پر ان تینوں فریقین یا حکومتوں کی بحث چل رہی ہے کہ اس میں 45 سے 55 فیصد تک کا پانی ارسا کی اپنی پالیسی یا فارمولے کے مطابق خیبرپختونخوا کی ملکیت ہے۔ اس پانی میں سے تقریبا ً پچیس سے تیس فیصد غازی بروتھا پروجیکٹ کے ذریعے پنجاب کو اے این پی کے دور حکومت میں بلا معاوضہ دیا گیا تو باقی دوسرے صوبے مناسب ادائیگی کے بغیر نہ صرف استعمال کر رہے ہیں بلکہ اب آپس میں پرائے پانی پر لڑ رہے ہیں۔ اس ضمن میں اب جاکر اچھی خبر یہ سامنے آئی ہے کہ موجودہ حکومت نے برسوں سے زیرالتوا چشمہ رائٹ کینال پروجیکٹ کو سی پیک کا حصہ بنا کر اس پر کام کا آغاز کر دیا ہے جبکہ مہمند ڈیم پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سب کا ہے اور اس کے وسائل پر سب کا یکساں حق ہے تاہم جو وسائل جس صوبے میں پیدا ہوتے ہیں اُن پر یا تو ان کا پہلا حق بنتا ہے یا دوسرے اگر وہ استعمال کرتے ہیں تو موجودہ فارمولے اور معاہدوں کے تحت شرائط پر عمل درآمد لازمی ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے جہاں صوبے خوشحال ہوں گے وہاں وفاقی ڈھانچہ بھی مضبوط ہوگا۔ اس لیے لازمی ہے کہ موجودہ شکایات کا نوٹس لے کر پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنایا جائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket