الیکشن التوا کا خطرہ ٹل گیا

وصال محمد خان
تحریک انصاف نے لاہورہائیکورٹ میں درخواست دائرکی کہ پنجاب میں ریٹرننگ آفیسرزانتظامیہ کی بجائے عدلیہ سے لئے جائیں جس پرحکم امتناع جاری کرتے ہوئے سنگل بنچ نے الیکشن کمیشن سے جواب طلب کرلیااس حکم امتناع سے الیکشن کاعمل رک گیااور8 فروری کے انتخابات پرشکوک وشبہات کے بادل منڈلانے لگے اس سے قبل چونکہ سپریم کورٹ انتخابات کاحکم جاری کرچکی ہے اورصدر مملکت والیکشن کمیشن نے مل کر8فروری کی تاریخ پراتفاق کیاتھا اسلئے معاملے میں سپریم کورٹ کی مداخلت ضروری سمجھی گئی اورلاہورہائی کور ٹ کے حکم امتنا ع کوکالعدم قراردیکرالیکشن کمیشن کوانتخابات کاشیڈول جاری کرنے کی ہدایت کردی گئی جس سے انتخابات پرمنڈلاتے شکوک وشبہات کے بادل چھٹ گئے اوراب وطن عزیزکے باسیوں کویقین واثق ہے کہ انتخابات مقررہ تاریخ پرہونگے ۔تحریک انصاف جو خودکوجمہوریت کی علم بردارکہلاتی ہے اوراس کادعویٰ ہے کہ وہ26سال سے جمہوریت کیلئے جدوجہدکررہی ہے اس نے انتخابات کے التواکیلئے ایڑھی چوٹی کا زورلگایامگریہ سازش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس سے قبل پرویزخٹک اورشاہ محمودقریشی برملا یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ گزشتہ جولائی اگست میں انتخابات کے انعقادپرحکومت وقت سے مذاکرات کامیابی کی جانب گامزن تھے کہ اسی اثنامیں عمران خان نے مذاکرات ختم کئے پرویزخٹک کے مطابق دوسے زائدبارانتخابات کی تاریخ مل رہی تھی مگراسے بلاوجہ ٹھکرادیا گیا۔اب گزشتہ ایک سال سے تحریک انصاف انتخابات کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ مگرجب انتخابات ہوتے ہوئے نظرآنے لگے تو اسکے خلاف عدالت سے رجوع کرکے الیکشن کے رواں عمل میں رخنہ اندازی کی کوشش کی گئی اسکے قائدین ایک طرف انتخابات کے مطالبات کرتے ہوئے نہیں تھکتے اوردوسری جانب انتخابات روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس سے یہی نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ یہ جماعت کنفیوژن کاشکار ہے اسکی قیادت یہ جاننے سے قاصرہے کہ انہیں کیادرکارہے ؟ انکے الٹے سیدھے اقدامات اوربیانات سے یہی آشکاراہورہاہے کہ ان کا ایجنڈاملک میں جمہوریت کافروغ اورتسلسل نہیں بلکہ یہ افراتفری اورعدم استحکام کے خواہاں ہیں۔ عدلیہ تنازعات سے بچنے کیلئے انتخابات میں ڈیوٹی دینے سے گریزاں ہے ۔ماضی قریب میں عمران خان نے نہ صرف کھل کر عدلیہ کو تنقیدکانشانہ بنایابلکہ اسکے خلاف بھرپور مہم چلائی اور متنازعہ بنانے کی مقدوربھر کوششیں کی گئیں جب بھی عدلیہ نے تحریک انصاف یاعمران خان کی مرضی کے خلاف فیصلے دئے توانکے خلاف سوشل میڈ یاپرہتک آمیزمہم چلائی گئی اور ججزپربے جاتنقیدکے تیربرسائے گئے ۔تحریک انصاف کی نظرمیں کوئی الیکشن کمشنرقابل اعتمادنہیں رہے 2013ء انتخابات کے وقت جو الیکشن کمشنرتھے انہیں عمران خان اورانکے پرستاروں نے جی بھرکرتنقیدکانشانہ بنایا،2018ء انتخابات میں اگرچہ تحریک انصاف نے کامیا بی حاصل کی مگراسکے باوجودچیف الیکشن کمشنرکواپوزیشن کی بجائے تحریک انصاف تنقیدکانشانہ بناتی رہی ان دو انتخابات میں چیف الیکشن کمشنرکواس قدرمتنازعہ بنادیاگیاکہ پورے ملک میں کوئی شریف آدمی چیف الیکشن کمشنربننے پرآمادہ نہیں تھادوبڑی شخصیات کے نام پیش کئے گئے مگرانہوں نے ازخودیہ منصب سنبھالنے سے انکارکردیاوجہ اسکی یہی تھی کہ کوئی شریف اورعزت دارآدمی اپنی عزت داؤپرلگانے کیلئے تیارنہیں تھاسکندرسلطان راجہ نے بمشکل یہ ذمہ داری سنبھالنے پرآمادگی ظاہرکی جنہیں بعدمیں عمران خان اورپی ٹی آئی نے اتناتنگ کیا،ان پرسوشل میڈیا اورعوامی اجتماعات میں تنقیدکے تیربرسائے گئے اگرکوئی کمزورشخص ہوتاتویقیناًان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتااب بھی تحریک انصاف کی بچی کھچی قیادت صبح اٹھ کرنہارمنہ الیکشن کمیشن پرتبراء بھیجنااپنافرض سمجھتی ہے اٹھتے بیٹھتے الیکشن کمیشن کوجانبدارقراردینے کی روایت سی بنادی گئی ہے الیکشن کمیشن نے اگرتحریک انصاف کوانٹراپارٹی انتخابات دوبارہ منعقدکر نے کاحکم دیاتواس میں براکیاہے ؟پارٹی کے رینٹیڈترجمان اپنے دل پرہاتھ رکھ کرخداکوحاضرو ناظرجان کرحلفاً کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات جو2021ء میں منعقدہوئے تھے یاالیکشن کمیشن کے حکم پرگزشتہ ہفتے دوبارہ منعقدہوئے کیایہ واقعی انتخابات تھے ؟اور اگریہ انتخابات تھے توکیایہ پارٹی ملک میں بھی اسی قسم کی جمہوریت کوفروغ دینے کی خواہاں ہے ؟ اگرانکی جمہوریت کالیول یہی ہے توایسی جمہوریت کوسلام ۔ ایک شخص تمام صوبائی صدوراوردیگرعہدیدارنامزدکردیتاہے اوراندھابانٹے ریوڑیاں کے مصداق چندگنے چنے افرادکو پارٹی کے تمام عہدے تفویض کردیتاہے یعنی کارکنوں اورالیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونک کربضدرہتے ہیں کہ ان نامزدگیوں کو ساری دنیاانتخابات تسلیم کرے اورجوکوئی تسلیم نہیں کرے گاوہ جانبدارہوگا اورقابل گردن زدنی ہوگاکیونکہ تحریک انصا ف لمیٹڈکمپنی کے چیف ایگزیکٹیونے جونامزدگیاں کی ہیں یہ انتخابات ہیں ۔اگرالیکشن کمیشن آر۔اوز۔کاتقررانتظامیہ سے نہ کرے توکہاں سے کرے؟کیا اس کیلئے انٹرنیشنل اخبارات میں اشتہارات دیکربرطانیہ سے گولڈ سمتھ خاندان کے افرادکوآر۔اوز۔کی نشستوں پربٹھادیاجا ئے ؟2015ء تحریک انصاف دورِ حکومت میں خیبرپختو نخواکے بلدیاتی انتخابات منعقدہوئے جس کیلئے آر۔اوز،ڈپٹی آراوزاوردیگرتمام عملے کی تعیناتی انتظامیہ کے من پسندافراد سے کی گئی بعض اضلاع کے آر۔اوز کاتعلق محکمہ بہبودِآبادی ،ریونیواوردیگرمحکموں سے تھا اور تحریک انصاف کادعویٰ تھاکہ یہ تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے جبکہ اب اسے انتظامیہ سے آر،اوزلگانے پراعتراض ہے اوریہ الیکشن عملے کی ٹریننگ کے دوران عدالت سے رجوع کرتے ہیں اوروہا ں سے الیکشن عمل رکوادیاجاتاہے اسکے باوجودان کادعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت پسندہیں اور جلداز جلدانتخابات کاانعقادچاہتے ہیں یہ دراصل انتخابات کاانعقادنہیں ملک میں عدم استحکام چاہتے ہیں یہ مکروہ عزائم ناکام ہونگے ۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد انتخابات التواکاخطرہ ٹل چکاہے۔ آمدہ انتخابات ملکی مستقبل کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔عوام کوسوچ سمجھ کراپنے نمائندوں کاانتخاب کرناہوگا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket