وصال محمد خان
دنیا کے تقریباً ہر ملک میں چھٹیاں کرنے یا منانے کا رواج موجود ہے۔ گرم ممالک میں چھٹیاں گرمیوں میں دی جاتی ہیں اور سرد ممالک میں چھٹیاں سردی زیادہ بڑھ جانے پر دی جاتی ہیں۔ وطن عزیز چونکہ گرم اور سرد دونوں ممالک کی صف میں شامل ہے یہاں دسمبر جنوری میں پڑنے والی سردی جیتے جاگتے انسان کا خون جماتی ہے اور جون جولائی کی گرمی سے بندہ پگھل جاتا ہے۔ انگریز سرکار کے بھیجے گئے گورے افسران کو جون جولائی اگست میں چھٹیاں دی جاتی تھیں کیونکہ شدید گرمی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ انگریز سرکار کی یہ روایت پاکستانی اشرافیہ کو ایسے بھائی کہ آزادی کے بعد بھی اس پر عملدرآمد لازمی قرار دیا گیا۔ ان چھٹیوں کا اطلاق دیگر شعبوں پر ہو نہ ہو مگر عدلیہ اور محکمہ تعلیم اس روایت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
اس مرتبہ عدالت عظمیٰ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کا فیصلہ آیا تھا جس میں کئی ابہامات موجود ہیں پورا ملک تفصیلی فیصلے کے انتظار میں تھا کہ اسی اثنا میں چھٹیوں کی گھنٹی بج گئی۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی وضاحت کے لیے رجوع کیا گیا ہے۔ ان تمام معاملات پر سماعت ہونی تھی مگر چھٹیوں کے سبب نہ ہو سکی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جج صاحبان اس اہم اور ضروری نوعیت کے معاملے کو نمٹاتے کیونکہ اس سے وابستہ کئی معاملات لٹکے رہ گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا سے سینیٹ میں گیارہ نشستیں گزشتہ پانچ ماہ سے خالی ہیں اگر مخصوص نشستوں کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا تو یہ نشستیں خالی نہ رہتیں مگر اب یہ معاملہ ایک ماہ کے لیے طول پکڑ چکا ہے۔ اس کے علاوہ اٹھاون ہزار کیسز کا بھی خاصا چرچا ہے جو عدالتوں میں زیر التوا اور شنوائی کے منتظر ہیں۔
قوم کے وسیع تر مفاد میں اگر جج صاحبان اپنی ان چھٹیوں سے دستبردار ہو جاتے تو انہیں کوئی خاص فرق نہ پڑتا مگر اس قربانی سے اہم نوعیت کے کئی مسائل حل ہو سکتے تھے۔ دنیا کا ہر کام مشکل ہے اور اسے انجام دینے والوں کو کٹھن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ججوں کا کام یقیناً آسان نہیں مگر انہیں فرائض کی انجام دہی میں موسم کی سختی جھیلنا نہیں پڑتی کیونکہ انہیں گھر، گاڑی، دفتر اور عدالت میں اے سی کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ مگر یہ سہولت جن لوگوں کے ٹیکس سے فراہم ہوتی ہے ان کی اکثریت کو 45 ڈگری گرمی میں پنکھے کی ہوا بھی میسر نہیں۔ کیونکہ بہت سے علاقوں میں بجلی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بائیس گھنٹے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اگر اس ملک کا عام آدمی موسم کی اس سختی کو برداشت کر کے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے تو اس کے خون پسینے کی کمائی سے سہولیات حاصل کرنے والے کسی بھی ادارے یا افراد کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مہینوں پر محیط چھٹیاں منائیں۔
اسی طرح محکمہ تعلیم میں بھی طویل چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے میدانی علاقوں میں پرائمری تک کے بچوں کو تین ماہ جبکہ ہائی سکول کے بچوں کو اڑھائی ماہ کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ اس دوران اساتذہ بھی فارغ بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ ملک میں چونکہ سیاسی شعور آ چکا ہے اس لئے اکثر و بیشتر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ہم مقروض کیوں ہوئے؟ یا آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ بجلی بنائے بغیر موٹی رقمیں وصول کرتی ہیں۔ جس ملک کے لاکھوں اساتذہ اور ہزاروں ججز کوئی کام کیے بغیر معاوضے وصول کرتے ہیں، چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں، امیر سرد علاقوں اور بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں جبکہ غریب یا چھوٹے ملازمین بھی کوئی مصروفیت ڈھونڈھ لیتے ہیں یعنی سرکاری کام نہیں کرتے خدمات انجام نہیں دیتے مگر تنخواہ ہر ماہ ان کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوجاتی ہے، جو ملک اربوں روپے اساتذہ، محکمہ تعلیم کے دیگر اسٹاف، عدالتی سسٹم اور آئی پی پیز کو بغیر کوئی کام کیے ادا کرتا ہے اس نے آج نہیں تو کل دیوالیہ ہونا ہی ہے۔
سکول کی طویل چھٹیوں سے بچے بھی شدید متاثر ہوتے ہیں ان کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے، اخلاقیات پر برا اثر پڑتا ہے۔ فارغ بچہ گھر پہ رہے تو کسی حد تک محفوظ رہتا ہے مگر طویل فراغت میں مسلسل گھر پر رہنا ممکن نہیں ہوتا، باہر نکلنا پڑتا ہے اور بری صحبت کی ہمارے ہاں فراوانی ہے۔ اگست کے مہینے میں اگر سکول کھلے ہوتے تو اساتذہ بچوں کو باجے بجانے اور ون وہیلنگ سے روکتے، بچوں کو تعلیم و تعلم میں مصروف رکھتے اور جس طرح کی یوم آزادی منانے کا ہمارے ہاں رواج جڑ پکڑ چکا ہے کھلے سکول اس روایت کی حوصلہ شکنی میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔ دو ماہ سے فارغ بچے کو یوم آزادی کے نام پر جو آزادی ملتی ہے اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بچے اس دوران اساتذہ کی نگرانی میں ہوتے تو کبھی ان فضولیات میں نہ پڑتے، نہ ہی بچے ضرررساں طریقے سے آزادی مناتے اور نہ ہی ڈھول باجوں پٹاخوں پہ اربوں روپے اڑاتے۔ سکولوں کی یہ طویل چھٹیاں ان گنت قباحتیں لئے ہوئے ہیں مگر ہمارے ہاں چھٹیاں ضرور دی جاتی ہیں۔
ہم جس ملک اور خطے میں رہتے ہیں اس میں گرمی غضب کی پڑتی ہے اور ہم اس شدید گرمی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ ہمیں اس کی عادت ہونی چاہئے۔ ہمارے بچے اتنے بھی نازک نہیں ہونے چاہئیں کہ وہ گرمی کے سبب گھر بیٹھ جائیں۔ وہ چھٹیوں میں کون سا سائے میں بیٹھ کر موسم سرد ہونے کا انتظار کرتے ہیں تو گلیوں میں آوارہ گردی کرنے کی بجائے یہ سکول میں پڑھائی کیوں نہ کریں؟ پھر ان کے اساتذہ کو ان چھٹیوں کی تنخواہیں بھی ملتی ہیں تو ان سے کام کیوں نہ لیا جائے؟ بچوں کو گرمی سے بچانا ضروری بھی ہے تو سکول کے اوقات کم کیے جا سکتے ہیں، صبح چھ بجے حاضری اور گیارہ بجے چھٹی دی جا سکتی ہے۔ اس سے پڑھائی کے تسلسل میں بھی خلل نہیں پڑے گا اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی حلال ہوں گی اور وہ آئی پی پیز کی طرح مفت کا معاوضہ وصول نہیں کریں گے۔
کسی بھی شعبے میں طویل چھٹیاں منانے کی روایت ختم ہونی چاہئے۔ مقروض ملک اور غریب قوم کو یہ عیاشیاں زیب نہیں دیتیں۔