دہشت گردی ، شرپسندی کے خلاف جنگ اور ریاستی عزم
عقیل یوسفزئی
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے گزشتہ روز طویل عرصے کے بعد ملک کو درپیش چیلنجز اور پاکستان کی ریاستی کارروائیوں ، عزائم کے بارے میں میڈیا کو ایک تفصیلی بریفنگ دی جس پر نہ صرف یہ کہ پاکستان اور پوری دنیا کے میڈیا میں تبصرے جاری ہیں بلکہ اس بریفنگ نے ریاستی پالیسیوں سے متعلق پھیلائی گئی بہت سی شکوک وشبہات کا کافی حد تک خاتمہ بھی کردیا ہے ۔ انہوں نے جہاں ایک طرف تقریباً ہر معاملے اور ایشو پر واضح موقف پیش کرتے ہوئے میڈیا کے سوالوں کے جوابات دیے وہاں انہوں نے دلائل کے ساتھ بہت تکرار اور اعتماد کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی اور شرپسندی کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائے گی اور یہ کہ ریاست نہ صرف جاری دہشت گردی کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی بلکہ 9 مئی جیسے واقعات میں ملوث شرپسندوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج نے رواں سال ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف 13000 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے جس کے نتیجے میں 239 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ 396 کو گرفتار کیا گیا ۔ ان کے بقول اس عرصے کے دوران پاک فوج کے متعدد افسران سمیت 60 جوان شہید ہوئے تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن علاقوں میں عام لوگوں کا جانا مشکل ہوگیا تھا اب وہاں آسانی کے ساتھ امدورف جاری ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے افغان عبوری حکومت کے ساتھ ہر قدم پر بہت تعاون کیا مگر انہوں نے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہی جس کے ردعمل میں پاکستان نے افغانستان کے اندر بھی کارروائی کی ۔ یہ بھی کہا کہ فوج کسی کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتی بلکہ یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے۔
ڈی جی نے پاکستان تحریک انصاف کو 9 مئ کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک منظم پلاننگ کے تحت پاکستان کی فوج ، اثاثوں اور یادگاروں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور ایک جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعے انتشاری ٹولے نے پاکستان کے اداروں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے مطابق 9 مئی کا مقدمہ پورے پاکستان کا مقدمہ ہے اور اس کے ذمہ داران کو ہر صورت میں منطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔ انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان تحریک انصاف یا اس کے بانی کو کوئی مقبول پارٹی یا لیڈر سمجھا جائے ۔ ان کے بقول 8 فروری کے عام انتخابات میں ملک بھر میں ساڑھے چھ کروڑ افراد نے ووٹ پول کیے ۔ ان میں مذکورہ پارٹی کو محض 7 فی صد ووٹ ملے ہیں ۔ یہ مہم بھی چلائی گئی کہ الیکشن میں پاک فوج کا کوئی سیاسی کردار رہا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس تفصیلی بریفنگ کو اس حوالے سے بہت اہمیت حاصل ہے کہ اس سے پاکستان کی منظم اور طاقتور فوج کے عزائم ، ارادوں اور مستقبل کے متوقع فیصلوں کا اندازہ لگانے میں کافی مدد ملتی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہ پاکستانی ریاست دہشت گردی اور شرپسندی دونوں کے خلاف پُرعزم ہے ۔ یہ اندازہ لگانے میں بھی آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ پاکستان کی فوج کے خلاف جاری پروپیگنڈا مہم کا اعلیٰ عسکری قیادت کو پورا ادراک ہے اور ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس منظم مہم کے پیچھے کون کون سے کردار اور قوتیں کارفرما ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردی کی جاری لہر سے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان زیادہ متاثر ہورہے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے عسکری قیادت کو اپنے چیلنجر اور ترجیحات کا بھی پورا ادراک ہے۔
اس تمام صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی چیلنجر کا ادراک کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان جیسے کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں اور غیر ضروری تصادم اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے راستے تلاش کیے جائیں کیونکہ ملک مزید تجربات اور محاذ آرائیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اگر تمام اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ مل کر آگے بڑھیں گے تو پاکستان بہت سے بحرانوں سے بہت جلد نکل جائے گا۔
