گزشتہ 4 مہینوں کی سیکورٹی صورتحال

گزشتہ 4 مہینوں کی سیکورٹی صورتحال
عقیل یوسفزئی
اس بحث سے قطع نظر کہ پاکستان کے سول حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں اور سیکورٹی فورسز امن کے قیام کے لیے مسلسل کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں تلخ حقیقت یہ ہے کہ رواں برس کے ابتدائی چار مہینوں کے دوران پاکستان بلخصوص خییر پختونخوا اور بلوچستان میں حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس کے متعدد اسباب ہیں ۔ ایک سیکورٹی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار مہینوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں 300 سے زیادہ حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں 326 آفراد شہید ہوگئے ہیں ۔ شہداء میں اکثریت کا تعلق مختلف سیکورٹی فورسز سے ہے ۔ 73 فی صد حملوں کا مرکز حسب سابق خیبرپختونخوا رہا جس کے جنوبی اضلاع اور تین قبائلی اضلاع سب سے زیادہ حملوں کا نشانہ بنے۔
رپورٹ کے مطابق صرف ماہ اپریل میں پاکستان میں 77 حملے کرایے گئے جن میں 70 افراد شہید جبکہ 67 زخمی ہوئے ۔ ان 70 شہداء میں سیکورٹی فورسز کے 31 جوان شامل ہیں جبکہ سویلین کے شہداء کی تعداد 35 رہی۔
خیبرپختونخوا کے شمالی وزیرستان میں 9 ، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت میں سات سات ، بنوں میں میں 6 ، باجوڑ میں 5 خیبر میں 4 جبکہ پشاور اور جنوبی وزیرستان میں چار چار حملے کئے گئے ۔خیبر پختونخوا میں فورسز نے مختلف علاقوں میں جو کارروائیاں کیں اس کے نتیجے میں 60 کے لگ بھگ عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ ایک درجن سے زائد گرفتار کئے گئے جن میں 5 اہم عسکری کمانڈر بھی شامل ہیں۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ان چار مہینوں کے دوران 90 سے زائد مطلوب عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ دو درجن گرفتار کیے گئے ۔ زخمیوں کی تعداد بھی اتنی ہی رہی۔
ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں حملوں کی تعداد میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہاں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی انسداد دہشتگری سے متعلق مبہم پالیسیاں اور عدم دلچسپی ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے حملوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور وفاقی حکومت کے ساتھ بدامنی پر قابو پانے کیلئے صوبائی حکومت ایک مربوط پالیسی اختیار کرے اور وفاقی حکومت بھی صوبے کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ہر سطح پر تعاون کی پالیسی اپنا کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ۔ صوبے کے نئے گورنر فیصل کریم کنڈی کا تعلق جنوبی اضلاع سے ہے اور ان کی پارٹی بعض دیگر کے برعکس شدت پسندی کے معاملے پر کافی واضح پوزیشن رکھتی ہے اس لیے توقع رکھنی چاہیے کہ وہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے اس سنگین چیلنچ سے نمٹنے کیلئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket