عقیل یوسفزئی
یہ بات بہت سے حلقوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو بدترین نوعیت کی بدامنی اور لاقانونیت کا سامنا کیوں ہے؟ کیا بیوروکریسی میں وزیر اعلیٰ کے خلاف کوئی لابی سرگرم عمل ہے یا موصوف کو صوبے کے مجموعی معاملات کو نمٹانے میں ناکامی کا سامنا ہے ؟ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں بدامنی کے متعدد بڑے واقعات ہوئے جس نے عوامی حلقوں کو پریشان کردیا ہے اور ان کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جو کہ بے جا نہیں ہے ۔ گزشتہ روز جنوبی وزیرستان میں فرائض سرانجام دینے والے ایک سیشن جج کو ٹانک سے آتے ہوئے اغوا کیا گیا ۔ اس کی گاڑی کو نذر آتش کردیا گیا اور گارڈ کو چھوڑ کر انہیں اپنے ساتھ لے جایا گیا ۔ اس واقعے سے قبل اسی ہفتے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایف سی اور پولیس پر دو مختلف حملے کئے گئے تو دوسری جانب نصف درجن سے زائد کسٹم اہلکاروں کو دو مختلف کارروائیوں کے دوران قتل کردیا گیا ۔
ان کے درپے واقعات سے بظاہر تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ صوبے کے انتظامی امور درست انداز میں نہیں چل رہے ۔ اگر صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کے آبائی علاقے کا یہ حال ہے تو باقی علاقوں میں صورتحال کیسے ہوگی اس کا محض اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ ہو بہو وہی والی صورتحال ہے جو کہ اسی پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کو چند سال پہلے ان کے اپنے آبائی ضلع یعنی سوات میں بدترین حملوں کی صورت میں پیش آئی تھی اور حالات اتنے خراب ہوگئے تھے کہ وزیر اعلیٰ اور ان کے دو تین مقامی وزراء اپنے علاقوں میں جانے سے بھی کترانے لگے تھے ۔
اب کے بار جہاں ایک طرف موجودہ وزیر اعلیٰ کا تعلق اگر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے تو انسپکٹر جنرل پولیس اور متعدد دیگر اہم افسران بھی اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایسے میں سوالات کھڑے ہوں گے تو وہ بے جا نہیں ہوں گے ۔ ایک جج کو دن دھاڑے گارڈ کی موجودگی میں اغواء کرنا اور ان کی گاڑی گاڑی کو نذر آتش کرنا کوئی معمولی واقعہ ہرگز نہیں ہے ۔ اس سے پہلے لکی مروت میں ایک سیمنٹ فیکٹری پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد کو نشانہ بننا پڑا ۔
اس تمام صورتحال پر نہ تو خاموش رہا جاسکتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت ان واقعات سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے لاتعلق رہ سکتی ہے ۔ ایسے معاملات کو ڈیل کرنا حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری میں آتا ہے اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ سیاسی محاذ آرائیوں اور جذباتی بیانات کی بجائے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں ۔ ورنہ حکومت پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔